کیا آپ تنہا رہتے ہیں؟ کیا آپ اپنے خاندان کے ساتھ رہ کر بھی احساسِ تنہائی کا شکار ہیں؟ کیا آپ کی محبت کے رشتے سرد پڑ چکے ہیں؟ کیا آپ اپنے گھر میں بھی اجنبی محسوس کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اس دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔
آپ کو بالکل اندازہ نہیں کہ اس دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ احساسِ تنہائی کا شکار ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے ایک کی کہانی سن لیں۔
میرے ایک پچتھر سالہ بزرگ مریض ’جن کا نام والٹر ہے‘ مجھ سے ملنے آئے تو فرمانے لگے
’ دسمبر کا مہینہ پھر آگیا ہے اور میں اداس ہو گیا ہوں۔ ‘
’ دسمبر کا مہینہ پھر آگیا ہے اور میں اداس ہو گیا ہوں۔ ‘
’آخر اس کی وجہ؟ ‘ میں متجسس تھا۔
’ اس کی دو وجوہات ہیں‘
’وہ کیا؟ ‘
’ اس کی دو وجوہات ہیں‘
’وہ کیا؟ ‘
’ پہلی وجہ یہ کہ چالیس سال کی شادی کے بعد میری بیوی سینڈرا بارہ دسمبر کو فوت ہو گئی تھیں اور میں اس بھری دنیا میں تنہا رہ گیا تھا۔ ان کی موت کے بعد مجھے پہلی دفعہ احساسِ تنہائی کے کرب کا اندازہ ہوا۔
دوسری وجہ یہ کہ میری بیگم کرسمس کا بڑا اہتمام کرتی تھیں۔ کرسمس ٹری CHRISTMAS TREEسجاتی تھی۔ بچوں بچیوں نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کے لیے تحفے خریدتی تھیں۔ ٹرکی ڈنر TURKEY DINNERبناتی تھیں۔ اور سب کو گھر بلا کر ایک جشن مناتی تھیں۔
لیکن جب سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوئی ہیں میں ایک نرسنگ ہوم میں آ گیا ہوں اور میرا اپنے خاندان سے رشتہ کم ہوتے ہوتے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اب میں برسوں سے کرسمس ڈنر کھانے کو ترس گیا ہوں۔
میں نے والٹر سے کہا کہ میرے ایک اور بزرگ مریض ہیں جن کا نام کرسٹوفر ہے وہ کرسمس کے دن SAINT VINCENT ’S KITCHEN میں بطورِ والنٹیر کام کرتے ہیں وہاں سب اجنبی اور بے گھر لوگ کرسمس ڈنر کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ دونوں کا تعارف کروا دوں۔
والٹر مان گئے میں نے ان کا تعارف کرسٹوفر سے کروایا۔ دونوں کی دوستی ہو گئی اور دونوں نے کرسمس ڈنر پر اکٹھے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس انتظام سے والٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
شمالی امریکہ میں نجانے کتنے بزرگ ہیں جو دسمبر کے مہینے میں اداس ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنے شریکِ سفر اور شریکِ حیات یاد آتے ہیں۔ وہ اپنے خاندانوں سے دور ہو چکے ہیں۔
میں انہیں مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے دوستوں کا ایک نیا خاندان بنائیں اور اس کا نام فیمیلی آف دی ہارٹ رکھیں۔ ایسا کرنے سے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے ہیں اور اب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔
ہم نے اپنے کلینک میں ایک گرین زون سینٹا GREEN ZONE SANTAکی روایت قائم کی ہوئی ہے جس سے ہم غریبوں اور بے روزگار لوگوں کو کرسمس کے تحفے دیتے ہیں۔ اس کے فنڈ میں ہمارے امیر اور صاحبِ ثروت مریض بھی رقم اور تحفے ڈونیٹ کرتے ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے کلینک کے مریض ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو پہلے کرسمس کے تحفے لیتے تھے لیکن اب وہ تحفے دیتے ہیں کیونکہ اب وہ صحتمند ہو گئے ہیں اور ان کے مالی حالات بہتر ہو گئے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کے دن بڑے ہوتے ہیں کبھی کی راتیں۔
یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے اپنی ایک سوگوار کرنے والی پرانی نظم یاد آرہی ہے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اس کا عنوان ہے
کرسمس ڈنر
اک حسیں شام تھی کرسمس کی
شہر میں ہر طرف چراغاں تھا
رنگ و نکہت کی ایک بارش تھی
ایسی رنگینیوں کے جھرمٹ میں
چند افراد اک گھرانے کے
کچھ تحائف کے ساتھ میز کے گرد
منتظر تھے کسی کی آمد کے
اور پھر خانداں کا بوڑھا شخص
لڑکھڑاتے ہوئے سہارے سے
اپنے بچوں کے پاس آ پہنچا
اس نے لیکن عجب حقارت سے
سب تحائف کو روند ڈالا تھا
سرخیِ مے سے جلتی آنکھوں سے
چند آنسو امڈ کے آئے تھے
اس نے پھر لڑکھڑاتے لفظوں سے
دل میں جو بات تھی وہ کہہ ڈالی
میری بچو! مرے جگر گوشو
سال بھر مجھ سے دور رہتے ہو
پھر کرسمس پہ تحفے دیتے ہو
جانے کن بستیوں کے باسی ہو
کیسی خوش فہمیوں میں زندہ ہو
میرا جس شہر میں بسیرا ہے
اس میں تنہائیوں کا ڈیرا ہے
ہر نفس پر یہ ہو رہا ہے گماں
خانداں کب کے مر چکے ہیں یہاں
خاندانوں کے پھر بھی ماتم کا
کس قدر اہتمام ہوتا ہے
ان کی مرقد پہ اب چراغاں بھی
سال میں ایک شام ہوتا ہے
یہ وہی شام ہے کرسمس کی
میں کہ اس شام کی اذیت کو
گھول کر پی گیا شرابوں میں
تم خدا کے لیے نہ آیا کرو
میری بیکل اداس شاموں میں
۔ ۔ ۔