چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب
ہیں انتظار میں “پچھلی” محبتوں کے مزار
محبتیں جو فنا ہو گئیں ہیں میرے ندیم!
اگلی نہیں کہوں گی۔ مجھے تو پچھلی محبتوں کا ماتم کرنا ہے۔ یہ دسمبر ہے۔ یادوں کی انیاں قلب و جگر میں اُتر آئی ہیں۔ یاد کرتی ہوں مصری سفارت خانے کے قومی دن پر میں اور بشری رحمن بھی مدعو تھے۔ سرینا ہوٹل کے ہال میں بنگلہ دیشی سفیر اور اُن کی بیگم بارے جاننے پر میں نے دونوں کے قریب جا کر کہا۔ ”میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے پڑھا ہے۔ میری روندھی آواز آنکھوں کے نمی اُترے گوشے اور پوربو پاکستان کی محبت میں بھیگے چہرے کو دونوں نے ہمدردانہ نظروں سے دیکھا اور بولے۔ دوبارہ نہیں گئیں۔ نفی میں سر ہلایا۔ کہنا چاہتی تھی پر کہہ نہ سکی کہ جذباتی عورت کو ویزا اور پاسپورٹ کے سلسلے تکلیف دیتے تھے۔ اپنے دیس جانے کے لیے کون اِن چکروں میں پڑتا ہے۔
یادوں نے گھیر لیا ہے۔ وہ دوپہر یاد آئی ہے جب گھر سے پہلی بار جہاز میں بیٹھ کر دُور پڑھنے کے لیے جانے والی لڑکی کا ذہن بیتابی شوق کے ساتھ ساتھ فکرو تشویش سے بھی بھرا ہوا تھا۔ جہاز کی سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے پاس سے گزرنے والی بنگالی خاتون کا ہاتھ پکڑ لیا اور ملتجی لہجے میں اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔ اس نے فوراً ہنستے ہوئے بازو میری کمر میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ”گھبراﺅ نہیں ہم تمہیں ہوسٹل پہنچا کر آئیں گے۔ “خوش طبع شوہر جو آرمی میں ڈاکٹر میجر تھا نے بھی دلداری کی۔ اطمینان بھرے سکون سے میں سیٹ پر بیٹھی اور آنکھیں بند کرتے ہوئے اس سرزمین کے بارے میں سوچا جہاں خوبصورت جزیرے ہیں ، گنگناتی ندیاں ہیں ، حسین آبشاریں ، موہ لینے والی جھیلیں ہیں اورجس کے باسیوں کو مشرق کے اطالوی کہا جاتا ہے۔
ہوائی اڈے پر اُترتے ہی انہوں نے مجھے اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا۔ تیج گاﺅں کا ہوائی اڈہ جس پر بدلیاں جھوم کر آئی تھیں۔ چمکیلا سبزہ آنکھوں کو طراوت دے رہا تھا۔ مرکزی عمارت کتنی عام سی تھی۔ یہ صوبائی دارالخلافہ کا ایروڈرم ہے۔ قدرت کا حسن بے پناہ پر انسانی کا ریگری اور شان کا فقدان۔
درختوں اور سبزے سے گھرا گھر قریب ہی تھا۔ عام سی ساڑھیوں میں لپٹی، میٹھی سی مسکان چہروں پر بکھرائے عورتیں اور سیدھے سادھے دھوتیوں کرتوں میں لپٹے مرد جن کے ساتھ فرش پر بچھی چٹائیوں پر بیٹھ کر میں نے پہلی بنگالی دعوت اڑائی۔ محبت سے انہوں نے مجھے رُخصت کیا اور دوبارہ آنے کی دعوت دی۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کے اکلوتے ہوسٹل رقیہ ہال کی مرکزی ورٹیکل ڈیزائن پر بنی بلڈنگ کے سامنے ایڈمنسٹریٹو آفس کی سیڑھیوں پر بیٹھی میں اپنے سامنے بارش کو کسی مہارانی کی طرح دیکھتے ہوئے ہاﺅس ٹیوٹر اور سپر آپا کے طرز عمل پر سوچتے کہ بیچاریاں کتنی دیر اس کوشش میں کھپتی رہیں کہ مجھے جس کمرے میں سیٹ کیا جائے اس کی لڑکیاں انگریزی بول چال میں ٹھیک ہوں اور اچھی بھی ہوں۔
گیٹ سے سائیکل رکشا برآمدے میں آکر رکا۔ ایک لڑکی اُتری۔ اندر گئی۔ تھوڑی دیر بعد باہر آئی۔ میرے پاس رکی اور بولی۔
”کہاں سے آئی ہو۔ “
”لاہور سے۔ “
”اوہو! تو گویا حکمران طبقے سے آئی ہو۔ “
بے نیازی سے کہتی ہوئی وہ آگے بڑھ گئی تھی۔ بھونچکی سی ہوکر میں نے گردوپیش کو دیکھا۔ موٹی عقل کو پہلے تو چند لمحے سمجھ ہی نہیں آئی جب آئی تو جیسے سارے وجود میں یاس کی اُداسی گُھل گئی۔ اُف تو وہ سب باتیں ٹھیک ہی ہیں کہ پوربو پاکستان کے لوگوں کی ایک اکثریت مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب سے بہت متفر ہے۔ میں نے گردوپیش کو دیکھا حسین موسم میں جیسے زہر سا گُھل گیا تھا۔
محبتیں ملیں تو نفرتوں کو بھی دیکھا۔ یہ محبتوں اورنفرتوں کے ہی ملے جلے جذبات تھے کہ جنہوں نے تین ماہ میں بنگلہ بول چال کے قابل بنا دیا اور ساڑھی پہننا بھی لازم ٹھہرا کہ کوئی خوقی (بچی) تو نہیں تھی میں۔
وہ بوڑھا ڈرل ماسٹر یادوں میں پوری توانائی سے ابھرا ہے جو مجھے بہت محبت سے اسکیٹنگ کرواتا۔ میں ناغہ کرتی تو پوچھتا کل کیوں نہیں آئی تھی۔ طبیعت تو ٹھیک تھی۔ کچن کی اُن معصوم سی دادیوں کو کیسے بھول جاﺅں جو رمضان میں میری سحری اور افطاری کا خاص خیال رکھتیں۔ عید پر میرے بارلیسال جانے پر خوش تھیں۔ یہ مخلص اور محبت کرنے والے انسان ان سینکڑوں ، ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی طرح ہی تھے جوان پڑھ اور جاہل کہلاتے تھے پر انسانوں سے پیار کرنا عبادت سمجھتے۔
اُف یاد کرتی ہوں اتوار کو فلم دیکھنے جانا۔ 10روپے میں چائینز کھانا۔ ڈھائی روپے فی کس کا حصّہ۔ اولڈ ڈھاکہ کی گلیوں میں گھومنا۔ انہی گلیوں میں گھومتے پھرتے میں ایک دن مشہور مصور زین العابدین سے ملی۔ پیچ در پیچ گلیوں کے سلسلوں میں ایک چھوٹے سے گھر میں دھوتی اور کرتے میں ملبوس اُس عظیم شخصیت نے چٹائی پر بیٹھ کر مجھ سے ڈھیروں ڈھیر باتیں کیں۔ کاش میں اس وقت آج جتنی بالغ ہوتی۔ تصویریں لیتی اور انہیں سنبھال کر رکھتی۔ موسیقی اور ڈراموں کی رمزوں کو سمجھا اور بنگال کی سرزمین میں سحر ہے جانا۔
مجھے مینی یاد ہے میری روم میٹ جِس نے مجھے ٹیگور پڑھایا۔ پڑھایا کیا ہضم کروایا۔ رضیہ اور رانی بھی یاد ہیں جو ہر دوسرے دن مجھے بتاتیں کہ ویسٹ پاکستان کتنا بڑا غاصب ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی لڑکیاں بڑی جنونی تھیں۔ سیاست اِن لڑکیوں کا اوڑھنا بچھونا۔ تیل لگے بالوں کی چٹیا، کلف لگی ساڑھیاں اور لپ اسٹک میک اپ سے بے نیاز چہرے۔ دوپہر کو نہاتیں ، راتوں کو آڈیٹوریم کے وسیع و عریض ہال میں دھواں دھار تقریریں کرتیں۔ چین کی ماﺅ، روس کی لینن اور انڈیا نواز لڑکیوں کے نعرے سب سے بلند ہوتے۔ اسلامی چھاتری شنگھو کی لڑکیاں بھی کبھی کبھار ایسے مظاہرے کرتیں مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک جیسی ہوتی۔ وہ امریکہ پلٹ نوجوان بھی کبھی نہیں بھولتا جو مرکزی ڈائریکٹریٹ میں اونچے عہدے پر بیٹھا تھا۔ جس نے میری مادری زبان بارے پوچھا تھا۔ پنجابی کا جاننے پر نخوت سے بولا۔
”آپ لوگوں نے اپنی زبان کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کردیا۔ ارے اپنی زبان کی نشوونما کرنے کی بجائے ایک غیر زبان کی آبیاری کر رہی ہیں۔ “
غیر زبان۔ تپ کر میں نے کہاتھا۔ اردو کے لیے غیر کا لفظ۔ یہ ہماری زبان ہے۔ یوں اس کے ساتھ ہماری کی تخصیص کچھ موزوں بھی نہیں۔ یہ تو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان ہے۔ اِسے پنجاب نے ہی پروان نہیں چڑھایا۔ اس کی آبیاری بنگال نے بھی کی ہے۔
بڑی لمبی بحث رہی تھی۔
ہر چھٹیوں میں کِسی کو ڈھونڈ لیتی۔ ساتھ چل پڑتی۔ اردو بولنے والے لوگ، مسائل، جذبات۔ آنے والے حالات کی ایک مبہم سی تصویر جو اہل نظر لوگوں کو دِکھتی تھی۔ پاکستان سے محبت کرنے والے بنگالی گھرانے۔ یادوں کا ایک ہجوم۔
وقت رخصت جان گئی تھی کہ نوشتہ دیوار کیا کہہ رہا ہے۔ شاید اسی لیے روتی آنکھوں نے کہا تھا۔
میرے پیارے پوربو پاکستان تمہارے ساتھ بہاروں کے کچھ دن گزرے۔ برستی برکھاﺅں کا حسن بھی تمہاری معیت میں دیکھا۔ چمکتی صبحوں میں تم میرے ساتھ تھے اور ٹھٹھرتی شاموں میں بھی میں نے تمہیں اپنے قریب پایا۔ تم اور میں جو ایک جسم کے دو حصّے ہیں۔ مجھے بتاﺅ !بہار کے کسی خوشگوار جھونکے، برکھا رُت کی کسی چمکیلی گھٹایا کسی سہانی شام کی سنہری کرن نے مجھے اگر تنہا دیکھا تو کیا کہیں گی کہ تم اس قابل نہ تھے کہ ساتھ رہتے یا ہم میں یہ اہلیت نہ تھی کہ تمہیں خود سے جدا نہ کرتے۔
الوداع میرے محبوب وطن۔