شیخ مجیب کے جیل میں ایام کی جاسوسی رپورٹ


(تینتالیس برس بعد بالآخر راجہ خان نے زبان کھول ہی دی۔ تاریخ کے اوراق میں کہیں نہ کہیں تشنگی باقی رہ جاتی ہے، جس کی تشفی کے لیے سیاست اور تاریخ کے طالب علم عموماً ریفرنسز کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے میں تاریخ جن کی آنکھوں کے سامنے بیتی ہو وہ لوگ کتابوں سے بھاری ثابت ہوتے ہیں۔ سرگودھا کے راجہ خان بھی انہی میں سے ایک تھے، پورا نام تو راجہ انار خان تھا۔ سنہ اکہتر میں سب انسپکٹر تھے، عارضہ قلب کے باعث دو بار سینہ چاک کروا بیٹھے، بلا کا حافظہ، بیان ایسا کہ سننے والا خود کو ماضی کے کسی واقعہ کا حصہ سمجھ لے۔ دو ہزار چودہ میں راجہ انار خان کے ساتھ ہوئے ٹی وی انٹرویو کا خلاصہ قارئین کی نذر)
دسمبر انیس سو ستر کے انتخابات میں واضح (تین سو میں سے ایک سو ساٹھ نشستیں ) اکثریت حاصل کرنے کے باوجود شیخ مجیب کو اقتدار سے محروم رکھا گیا، متحدہ پاکستان میں سیاسی کشیدگی عروج پر جا پہنچی اور جنرل یحیٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ مارچ یا اپریل انیس سو اکہتر میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان کو ڈھاکہ سے فوج نے حراست میں لیا، ہوائی جہاز کے ذریعے انہیں پہلے کراچی، پھر چکلالہ لایا گیا اور بعد ازاں میانوالی جیل کی ایک کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا۔ اُن دنوں راجہ انار خان شاہی قلعہ لاہور کے تفتیشی سیل میں سپیشل برانچ کے سب انسپکٹر تھے، اس وقت کے ڈی ایس پی شیخ عبدالرحمان راجہ خان کو میانوالی لے آئے جہاں انہیں شیخ مجیب الرحمان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے قیدی کا روپ دھارنا پڑا۔
راجہ خان اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہنے لگے : ”اس سیل میں کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک اور شخص ایوب بھی تھا، مجھے ایک قیدی کا روپ دھارنا پڑنا اور یوں ایک مشقتی کے طور پر شیخ مجیب الرحمان کے سیل میں داخل ہوا۔“ راجہ خان کہتے ہیں کہ چند ہفتوں تک تو شیخ مجیب الرحمان انہیں مشکوک سمجھتے رہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مانوس ہو گئے اور پوچھا کہ کیوں بھئی، یہاں کس جرم میں پہنچے؟ جواب دیا، ”بابا! ہم نے ایک لڑکی کو اغوا کیا تھا، تین سال قید ہوئی ہے اس لیے اب یہاں پہنچ گئے۔“ سیل میں ایک برآمدہ تھا، چھوٹا سا صحن، جہاں صرف ریت تھی، ایک کچن اور شیخ مجیب الرحمان کے سونے کے لیے ایک کمرہ تھا، ایوب اور راجہ خان مل کر شیخ صاحب کے لیے کھانا پکاتے۔ راجہ خان کے مطابق وہ انہیں بابا کے نام سے پکارتا تھے۔
راجہ خان کے بقول شیخ مجیب الرحمان عموماً چپ رہتے، جیل میں انہیں ملکی سیاسی حالات سے بالکل بے خبر رکھا جاتا، اخبار، ٹی وی، ریڈیو حتیٰ کہ خط و کتابت تک کی بھی اجازت نہ تھی۔ مجیب مچھلی اور مٹن شوق سے کھاتے، پائپ پیتے تھے اور ایلن مور کا تمباکو استعمال کرتے۔ وہ اپنی دھوتی اور بنیان خود دھوتے، اردو روانی کے ساتھ بولتے اور کچھ لفظ پنجابی کے بھی سیکھ چکے تھے۔ شیخ مجیب کبھی کبھی ماضی میں کھو جاتے اور کہا کرتے : ”راجہ خان! ہم نے اپنی جوانی اور کیرئیر پاکستان کے لیے صرف کر دیا، ڈھاکہ سے چٹا گانگ اور مضافات تک کشتیوں میں سفر کرتے اور پاکستان کے قیام کا پیغام عام کرتے رہے“ وہ موجودہ سیاسی منظر نامے کا ذکر کرتے ہوئے افسردہ ہو جاتے۔
چند ماہ بعد انہیں ساہیوال جیل منتقل کیا گیا، جہاں سے انہیں فیصل آباد سنٹرل جیل لایا گیا۔ ان دنوں اکہتر کی جنگ شروع ہو چکی تھی، بھارتی فضائیہ کے چند گولے جیل کے قریب گرے جس پر شیخ مجیب نے پوچھا یہ کیا ہورہا ہے؟ راجہ خان نے بتایا کہ قریب ہی فضائیہ کی رینج ہے، مشقیں کی جا رہی ہیں۔ راجہ خان بتاتے ہیں کہ خطرہ تھا کہ کہیں بھارتی فضائیہ جیل پر حملہ نہ کردے لہذا انہیں پھر سے میانوالی جیل منتقل کر دیا گیا۔
فیصل آباد قیام کے دوران جیل ہی میں ان کا ٹرائل شروع ہو گیا، وہ پر اعتماد طریقے سے ٹرائل میں پیش ہوتے لیکن انہیں یقین تھا کہ ٹرائل کا فیصلہ ان کے خلاف آئے گا۔ راجہ انار خان سکیورٹی آفیسر کے روپ میں شیخ مجیب الرحمان کے مشقتی تھے جو آہستہ آہستہ ان کے قریب ہوتے جا رہے تھے۔ ایک بار جب راجہ خان نے ان سے عوامی لیگ کے بارے سوال پوچھا تو شیخ صاحب نے تاج الدین (جو بعد میں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم بھی بنے ) کے بارے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر کوئی چال نہ چلے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایسے سیاستدانوں کو پارٹی کی ضرورت بھی قراردیا۔
میانوالی جیل میں چند روز قید کے بعد انہیں چشمہ بیراج کیمپ میں لایا گیا، اور یہاں سے پھر انہیں سہالہ پولیس کالج کے آفیسر ہاسٹل میں منتقل کر دیا گیا جو ان کی پاکستان میں آخری قیام گاہ ثابت ہوئی۔ راجہ انار خان کے بقول سہالہ میں ان کے کمرے کی کرسی میں ٹرانسمیٹرز نصب تھے اور آپریٹر کے ذریعے ان کی تمام نقل و حرکت اور گفتگو ریکارڈ کی جاتی۔ شیخ صاحب کی رہائی کے لیے حالات سازگار ہو رہے تھے، سقوط ڈھاکہ کا واقعہ پیش آچکا تھا کہ ایک روز بھٹو صاحب ان سے ملنے آئے۔ بھٹو صاحب کے ذریعے انہیں تمام تر واقعات کا علم ہوا، اس ملاقات کے دوران راجہ خان پردے کے پیچھے پستول تھامے اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے کیونکہ اس ملاقات میں ناخوشگوار واقعے کا خدشہ تھا۔
شیخ مجیب سقوط ڈھاکہ سے یکسر لاعلم تھے، بھٹو کو دیکھتے ہی بولے کہ تم یہاں کیسے پہنچے؟ بھٹو صاحب نے بتایا کہ وہ اب سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہیں اور پاکستان ٹوٹ چکا ہے۔ راجہ خان بتاتے ہیں کہ پاکستان ٹوٹنے کی خبر سن کر شیخ مجیب الرحمان صدمے کی حالت میں کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بے اختیار چیخ اٹھے کہ نہیں، ایسا تو میں ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ بھٹو صاحب ادھر ہم ادھر تم تو آپ کہا کرتے تھے میں نے تو ایسا کبھی نہ چاہا تھا۔ بھٹو صاحب نے بتایا کہ جلد آپ کو یہاں سے روانہ کر دیا جائے گا۔
راجہ خان کے مطابق بھٹو صاحب سے ملاقات کے بعد شیخ مجیب الرحمان مغرب تک روتے رہے اور افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ سر شام میں اندر داخل ہوا، انہیں درخواست کی کہ واش روم جائیں اور ہاتھ منہ دھولیں، اسی اثنا میں ان کی کرسی کا ٹرانسمیٹر خراب ہو گیا، اور میں نے جلدی سے کرسی تبدیل کی اور دوسری کرسی جس میں پہلے ہی سے ٹرانسمیٹر نصب تھا وہ کمرے میں رکھ دی اور کمرے سے باہر نکل گیا، عشا کی نماز کے دوران آپریٹر جو بنگالی زبان بھی جانتا تھا نے بتایا کہ شیخ مجیب الرحمان سجدے میں گر کر روتے رہے اور کہتے رہے، ”یا اللہ! میں نے تو کبھی ایسا نہ چاہا تھا، یہ کیا ہوگیا۔“
یہ سب بیان کرتے ہوئے راجہ خان کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں اور ان کی زبان لرزتے ہوئے بند ہو چکی تھی اور راجہ خان ہچکیاں لیتے ہوئے روتے رہے، ہمیں انٹرویو کچھ لمحوں کے لیے روکنا پڑا اور یوں محسوس ہوا جیسے ہم بھی راجہ خان کے ساتھ سہالہ کالج کے آفیسرز ہوسٹل کے اس کمرے میں ہیں جہاں شیخ مجیب الرحمان رات گئے تک روتے رہے۔
روانگی سے پہلے شیخ مجیب الرحمان نے راجہ انار خان المعروف راجہ خان کو معروف روسی ادیب دوستوفسکی کا شہرہ آفاق ناول ”جرم و سزا“ (Crime and Punishment) تحفے میں پیش کیا اور جاتے جاتے اپنا پائپ بھی راجہ خان کو تھما دیا۔ کتاب کو راجہ خان کے نام کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے لکھا؛
To
Raja Anar Khan (Raja Khan)
In the long war between the falsehood and the truth، Falsehood wins the first battle and truth the last۔
Sheikh Mujib ur Rahman
5/1/72
(آخری دستیاب اطلاعات کے مطابق راجہ انار خان شدید علیل تھے )