ہم سب پر ڈاکٹر سہیل خالد کا مضمون کیا آپ کی اپنے بچوں سے دوستی ہے؟ پڑھا اور سوچ میں پڑ گئی۔ ڈاکٹر صاحب کے مضامین کی یہی خوبی ہے کہ وہ اپ کو سوچنے پر مجبور نہیں تو آمادہ ضرور کر دیتے ہیں۔ مجھے ان کے موقف سے بنیادی اختلاف ہے۔ والدین بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں لیکن یہ نہ بھولیں کہ وہ والدین ہیں اور بحثیت والدین ان کی ذمہ داریاں بہت ہیں۔ ہم بھی والدین ہیں۔ بچے بڑے ہو گئے تو کیا، ہمارے تو وہ اب بھی بچے ہیں۔ بچوں کی پرورش کا کئی سال کا ذاتی تجربہ ہے۔ کچھ اپنے تجربے اور کچھ خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گی۔
جب بچے بالکل چھوٹے ہوتے ہیں والدین ان کا پیٹ بھرنے اور نیپیز بدلنے کا خیال رکھتے ہیں۔ ذرا بڑے ہوئے تو گود میں بٹھا کر لوریاں دے کر یا انہیں ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے میں اپنے تینوں بیٹوں کے لیے یہ گانا گاتی تھی۔ “منا بڑا پیارا، امی کا دلارا” بچے ذرا اور بڑے ہوئے تو بچوں کے ساتھ ان کے کھلونوں سے کھیلنے میں کچھ وقت گزارتے ہیں۔ رات کو بستر میں لٹا کر کہانی سننانا۔ ان کی باتوں پر ہنسنا اور انہیں شاباش دینا۔ اور ساتھ ہی کچھ اصول بھی بتائے جاتے ہیں۔ سونے اور اٹھنے کے اوقات طے کرنا، سونے سے پہلے دانت برش کرنا، کھیلنے کے بعد اپنے کھلونے اور دوسری چیزیں سمیٹنا وغیرہ۔
بچے اسکول جانا شروع کریں تو صبح ایک مخصوص وقت پر اٹھنا، اسکول کے لیئے تیار ہونا، واپس آ کر اسکول کے دن کا حال بتانا اور شام کو ہوم ورک کرنا۔ اب یہاں والدین باونڈریز سیٹ کر رہے ہیں۔ گھر کے اصول طے کر رہے ہیں۔ یہ والدین کا فرض ہے۔ اور اس سے غفلت مجرمانہ ہے۔ بچوں کے ساتھ کبھی ککنگ یا بیکنگ کرنا ان کے ساتھ بہترین کوالٹی ٹائم گذارنے کا طریقہ ہے۔
بچے ٹین ایج میں داخل ہوتے ہی اپنی دنیا الگ بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ والدین کا روکنا ٹوکنا انہیں ناگوار گذرنے لگتا ہے۔ ایک طے شدہ وقت پر گھر واپس آنا بھی انہیں شخصی آزادی کے خلاف عمل لگنے گلتا ہے۔ اصول برے لگتے ہیں۔ وہ ان تمام پابندیوں کو خود کے ساتھ ناانصافی سمجھنے لگتے ہیں۔ اب اگر آپ بچوں کے صرف دوست ہیں تو پابندیاں اٹھا لیں۔ بچے کو من مانی کرنے دیں۔ لیکن آپ والدین ہیں۔ پرورش کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے۔ رہنمائی، ڈسپلن، وقت کی پابندی، دوسروں کا خیال، ہر ایک کی عزت اور بڑوں کا ادب والدین ہی سکھاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ہر وقت استاد بنے رہیں یا اپ کا گھر کسی آرمی اکیڈمی جیسا نظر آنے لگے۔
دوستی میں برابری ہوتی ہے۔ لیکن والدین اور بچوں کے درمیان بڑے اور چھوٹے کا فاصلہ ہے۔ آپ اور بچے ہم عمر نہیں۔ والدین بڑے ہیں اور بڑوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بچوں میں اتنا اعتماد ضرور ہو کہ وہ ہر بات آپ سے کہہ سکیں لیکن اتنی بے تکلفی نہ ہو کہ وہ آپ کی بات ہنسی میں اڑا دیں۔
بچوں کے دوست بہتیرے ہو سکتے ہیں۔ اسکول میں، محلے میں، فیس بک پر۔ لیکن والدین ان کےصرف آپ ہی ہیں۔ دوست ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ چاہے کوئی کچھ غلط بھی کر رہا ہو۔ ایسے دوست بھی ہوتے ہیں جو پارٹنرز ان کرائم بن جاتے ہیں۔ لیکن والدین بچے کو کچھ غلط کرتا دیکھ کر چپ رہ کر ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ ٹوکتے بھی ہیں، منع کرتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو سختی بھی کر سکتے ہیں۔ سختی سے مراد جسمانی یا نفسیاتی تشدد ہرگز نہیں۔
گھر کے اصول وضع کرنے میں تامل نہ کریں۔ یہ اصول ہی انہیں با اصول بنایں گے۔ آپ بچوں کو خوداعتماد بنائیں، انہیں یہ یقین ہو کہ اگر ان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو وہ آپ کو بغیر کسی جھجھک کے بتا سکیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ آپ انہیں وہی مشورہ دیں گے جو خود ان کے لیئے بہترین ہو نہ کہ وہ جو آپ کی اپنی خواہش کے مطابق ہو۔
بچوں کو صحیح اورغلط کی تمیز، سچ اور جھوٹ کا فرق اور غلط کام کے نتائج آپ ہی انہیں بتا اور سکھا سکتے ہیں۔ جب آپ ان کےصرف دوست بنے رہیں گے تو وہ آپ کا احترام بھی نہیں کریں گے۔ احترام اور عزت کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ بچے آپ سے ڈرنے لگیں۔ انہیں خوف میں مبتلا مت کریں۔ اپنے اور ان کے درمیان خلیج بھی حائل نہ ہونے دیں۔ ان پر بھروسہ کریں لیکن آنکھیں کھلی رکھیں اور اصولوں پر سودا مت کریں۔
بچوں نے آپ کے ساتھ ایک عمر گذاری ہوتی ہے اس لیئے انہیں آپ کی پسند اور ناپسند کا علم ہوتا ہے۔ آپ کیسی کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں، کونسا پرفیوم آپ کا پسندیدہ ہے، کس رنگ کی ٹائی اچھی لگتی ہے۔ کس قسم کی موسیقی سے شغف ہے، وغیرہ۔ اس لیئے تحفہ دیتے وقت انہیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں ہیں کہ کہاں کہاں ماں باپ نے اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھ کر بچوں کی ضروریات کو مقدم جانا ہے۔ آپ کی شخصیت کا ہر پہلو بچے جانتے اور سمجھتے ہیں۔
چند سال پہلے میرے بڑے بیٹے نے مجھے سالگرہ پر لوِئس ویتونگ کا بیگ دیا اور کہا” ما جب ہم چھوٹے تھے اور پہلی بار لندن چھٹیاں گذارنے گئے تھے تو آپ ایک اسٹور پر اس بیگ کو بار بار دیکھ رہی تھیں لیکن قیمت دیکھ کر آپ نے اسے ایک طرف کر دیا اور ہم بچوں کے لیئے چیزیں خریدتی رہیں۔ میں نے سوچ لیا تھا کی ایک دن آپ کے لیئے ضرور یہ بیگ خریدوں گا”
باپ کی سالگرہ پر تینوں بیٹوں نے مل کر ان کے لیئے گٹار خریدا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بابا کو موسیقی سے کتنا لگاو ہے اور وہ کب سے گٹار کی خواہش دل میں دبائے ہوئے تھے۔ اب اس سے بڑھ کر آپ کے لیئے کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے آپ کے لیے سوچتے ہیں؟
منہ بولے بچوں سے آپ مکمل دوستی نبھا سکتے ہیں کیونکہ وہاں آپ پر تربیت کی براہ راست ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ آپ ان کے ساتھ دوست ہی بن کر رہ سکتے ہیں۔ فلسفیانہ گفتگو کر سکتےہیں، اپنے نظریات بیان کر سکتے ہیں، مانگنے پر مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ اس لیئے یہ رشتہ خالص دوستی پر قائم رہ سکتا ہے۔
ہاں جب بچے بالغ ہو جایں تو تربیت کا مرحلہ کچھ کچھ اختتام پر آ جاتا ہے اس مرحلے پر بچوں کے ساتھ آپ کی دوستی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ اب وہ آپ سے اسی وقت مشورہ مانگتے ہیں جب انہیں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ پھر آپ ان سے یہ سوال بھی کر سکتے ہیں کہ مشورہ دوست بن کر دیں یا والدین بن کر؟
دوست بنانا اور دوستی رکھنا بہت اہم ہے۔ دوست ایک دوسرے کے ساتھ وقت گذارتے ہیں، ہنستے کھیلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے دکھ سکھ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن رہنمائی اور درست سمت کی نشاندہی کے لیئے وہ والدین ہی طرف دیکھتے ہیں۔ بچوں کو والدین کی موجودگی کی ضرورت ہے۔ اپنا وجود ثابت کیجیئے۔ آپ با اصول رہ کر بھی بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھ سکتے ہیں۔ پیار اور محبت کے ساتھ حدیں بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ صحت مند ماحول کے لیئے کچھ احتیاطی تدابیر لازمی ہیں۔ آپ کا بچوں کے ساتھ رشتہ محبت اور جذبات کا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت بھی آپ ہی کا کام ہے۔ اگر آپ ان کے بیسٹ بڈیز بنیں گے تو اپ اپنے فرض سے غفلت اور بچوں پر زیادتی کریں گے۔ جیسا کہ پہلے کہا کہ بچوں کے دوست بہت ہیں اور بھی ملیں گے، بنتے رہیں گے لیکن ماں باپ ان کے صرف آپ ہی ہیں۔