آٹھ مارچ ہر سال دنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد عورتوں میں شعور اور آگاہی پھیلانا ہے۔ تاکہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں جان سکیں اور ملکی دھارا میں شامل ہو کر اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ پاکستان میں نوے کی دھائی میں این جی اوز کے آنے سے اس دن کی اہمیت خاصی بڑھ گئی ہے۔ ہر ادارہ، چاہے وہ ملکی ہو یا غیر ملکی، اس دوڑ میں لگ گیا کہ اس کی ادارے میں کام کرنے والی کوئی عورت ہو، ان کی پروگرام میں تقریر کرنی والی کوئی گاؤں کی خاتون ہو تاکہ وہ ڈونر کو انسپایر کرکے زیادہ سے زیادہ فنڈز لے سکیں اور ان کو یہ باور کراسکیں کہ دیکھیں ہمارا ادارہ عورتوں کے حقوق پر کام کرتا ہے۔ عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد پر بات کرتا ہے، ہم کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی جیسے دقیانوسی رسم و رواج کے خلاف عورتوں کو شعور اور آگاہی دے رہے ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم اور چھوٹی عمر کی شادی کے خلاف آگاہی مہم چلا رہے ہیں، تاکہ عورتیں ان زنجیروں سے آزاد ہوکر مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ چل سکیں۔ عورتوں کو داد دیتے نھیں تھکتے تھے ہر طرف واہ واہ تالیوں کی گونج میں نہ صرف ان کی ہمت افزائی کے جاتی تھی بلکہ شیلڈز بھی دی جاتی تھیں۔
اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں تھی اور ہونا بھی یہ ہی چاہیے تھا جو ہوا، عورتوں کو شعور ملا، آگاہی ملی، انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ملکی ترقی کے دھارے میں شامل ہوئیں۔ ہر شعبے میں خود کو منوایا، لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی جب سے عورت نے خود اپنے حقوق کے بارے میں بات کرنا شروع کی ہے تو وہی مرد مخالف ہوگئے ہیں، جو مارے مارے پھرتے تھے عورتوں کو حقوق دلانے کے لے۔ اب ان کو پتہ چلاہے کہ یہ غیر ملکی ایجنڈا ہے، یہ ایلیٹ کلاس کی عورتیں ہیں، ان کو باہر سے فنڈنگ ہوتی ہے۔ عورتوں کی اتنی کردار کشی کی جا رہی ہے، ان کو برا بھلا کہا جا رہا ہے، جیسے یہ عورتیں نہ ہو جیسے وہ اپنے حقوق نہیں مانگ رہیں، جیسے یہ کوئی خلائی مخلوق ہیں اور کوئی انہونا مطالبہ کر بیٹھی ہیں، مطالبہ تو بہرحال انہوں نے انہونا کیا ہے۔
میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر، اس جاگیردارانہ سماج میں عورت بھی توایک جاگیر ہی ہے، جو چوبیس گھنٹے، بارہ مہینے، پوری زندگی، صدیوں سے بغیر کسی معاوضے، بغیر کسی مطالبے، بغیر کسی چوں و چرا کے گونگی بہری بن کر صرف ہاں میں ہاں ملاتی آئی ہے۔ جھاڑو پوچے سے لے کر کھانا بنانے تک، کھانا بنانے سے بستر گرم کرنے تک، بستر گرم کرنے سے بچے پیدا کرنے تک، بچے پیدا کرنے سے روٹی بنانے میں دیر ہو جانے پر مار کھانے تک کبھی اس نے اف تک نہیں کیا جیسے اس کے منہ میں زباں ہی نہیں۔
کبھی چھٹی نہیں مانگی، کبھی شکوہ نہیں کیا کبھی تھکتی ہی نہیں، کبھی ضرورت پڑگئی تو خاموشی سے مرد کے آگے ہاتھ پھیلا دیا، لیکن یہ نوبت تو کبھی آتی ہی نہیں ہے، عورت کو کیا چاہیے چھت اور دو وقت کی روٹی بس۔ یہاں تک کہ بچے پیدا کرتے کرتے مرجاتی ہیں لیکن اس کو بھی رب کی رضا کہہ کر کچھ عرصے بعد مرد دوسری شادی کر کے آجاتا ہے اور دنیا چلتی رہتی ہے۔ لیکن اب جب اس نے یہ نعرہ لگایا ہے، تو ملک میں ایک طوفان برپا ہوگیا ہے۔
کہ اس کی کیا مرضی ہے۔ یہ فحاشی پھیلانا چاہتی ہیں، یہ مغربی ایجنڈا ہے۔ ان کو کون سی آزادی چاہیے۔ یہ رنڈی ہے، اس کو زیادہ مردوں کی ضرورت ہے، بازارو عورت ہے جیسے القاب سے نوازا جا رہا ہے جیسے وہ بھول چکے ہوں کہ ان کو بازار میں کون بٹھاتا ہے۔ اب ان کو عورت فحاشی کا اڈا نظر آرہی ہے۔ کیونکہ اب ان کو پتہ ہے کہ عورت اپنے حقوق سے آگاہ ہو چکی ہے، اب اس ملک میں مردوں کی اجارہ داری نہیں چلے گی۔ جب عورت اپنے حقوق کے لے کھڑی ہوجائی تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔
اور یہ آزادی صرف عورت کی آزادی نہیں ہے، یہ ہر طبقے کی آزادی ہے یہ پوری سماج کی آزادی ہے اب وہ زمانا نہیں رہا جس میں ایک کمانے والا اور دس کھانے والے ہوتے تھے۔ اس وقت، اس ملک کی پچاس فیصد آبادی عورتوں کی ہے جسے گھروں میں بٹھایا ہواہ ے، جب تک ملکی ترقی میں وہ اپنا کردار ادا نہیں کریں گی، یہ ملک کبھی ترقی نہیں کرے گا، ترقی کے بغیر نئی دنیا ممکن نہیں، جس میں نہ کوئی حاکم ہو نہ کوئی محکوم، نہ کوئی مالک ہو نہ کوئی غلام۔