مسرت بھرا شور، ہنسی، قہقہے، باتیں اور چھینا جھپٹی!
ہمارے دونوں ٹین ایجر بچے چھٹی منا رہے تھے اور روزمرہ کے دنوں میں گھرمیں پھیلا ہوا سناٹا ان کی شرارت بھری آوازیں سن کے مسکراتا تھا!
یک لخت دونوں بھاگتے دوڑتے ہم تک آن پہنچے اور پھولی سانس سے دونوں بولے،
” اماں ایک بات بتائیے “
“پوچھیے بیٹا”
“ہم دونوں میں سے آپ کو کون زیادہ اچھا لگتا ہے ؟ حیدر یا شہر بانو؟”
اور ہمیں یوں لگا کہ یہ بازگشت تھی گئے زمانے اور گزرے وقت کی!
شاید ہم نے بھی کسی آنگن میں کھیلتے کبھی یہی پوچھا تھا۔ شاید ہر بچہ اپنے ماں باپ سے محبت و الفت کی یاد دہانی چاہتا ہے۔
” پہلے مجھے بتائیے کہ آپ کو اگر دیکھنا ہو تو کونسی آنکھ استعمال کریں گے”
“اماں، ایک آنکھ سے تو ادھورا دکھے گا، مکمل منظر تو دو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے”
” تو آپ دونوں میری دو آنکھیں ہیں، ایک دائیں ایک بائیں۔ مجھے دونوں سے زندگی خوبصورت اور مکمل نظر آتی ہے۔ دونوں آنکھیں میری ضرورت ہیں”
دونوں نے میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال دیں!
کیف و انبساط کے ان لمحات میں ایک عجیب سے خیال نے سر اٹھایا،
” کیا ہم اپنے اس من موہنے بیٹے کی خاطر اس فرشتہ صورت بیٹی کو قربان کرسکتے ہیں ؟
کیا حیدر اگر غلط راہوں پہ چلتا ہوا سزا کا حقدار ٹھہرے، اس کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لئے شہر بانو کو جیتے جی جہنم میں دھکیلا جا سکتا ہے؟ “
“کیا وہ باپ جو یہ فیصلہ کرتے ہیں، ان کا اپنی بیٹی کے لئے محبت کا پلڑا ہلکا ہوتا ہے اور بیٹی قربان کرتے ہوئے ان کا دل نہیں کانپتا؟”
دل پہ ایک گھونسا سا پڑا اور آنکھ سے کچھ بے مایہ قطرے ٹپک پڑے!
دنیا بھر کی عورت کی بات کرتے کرتے وطن عزیز میں کم سن بچیوں پہ ہونے والے ظلم کی یاد آ گئی!
” ونی یا سوارہ ” ایک ایسی رسم جو وطن کے سب مردوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے۔ عورت کو دو ٹکے کا گرداننے والوں کی ذہنیت اس پنڈال میں کھلتی ہے جب مردانگی کے زعم میں مبتلا مردوں کا اجتماع اپنے جیسے مرد کی غلطی معاف کرتا ہے، اپنے جیسے ہی کو کفارہ ادا کرنے کو کہتا ہے، اور اپنے جیسے ایک اور مرد کی عیاشی کا سامان کرتا ہے۔
اس ساری اکھاڑ پچھاڑ میں چھری تلے کون آتی ہے، ایک کم سن بچی!
وہ جو ابھی ماں سے لپٹ کے سوتی ہے۔ وہ جو بابا کے گھر آنے پہ دوڑ کےدروازہ کھولتی ہے۔ وہ جو آنگن میں بہن بھائیوں کے ساتھ بے فکری سے کھیلتی کودتی ہے۔ وہ جو سہلیوں کے ساتھ گڑیا کی شادی رچاتی پھرتی ہے۔ وہ جسےابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ زندگی آ خر ہے کیا؟ وہ جس کے پاؤں تلے زمین نہیں، سر پہ آسمان نہیں، اپنی شناخت نہیں، اپنے وجود سے آگہی نہیں، جسم میں دوشیزگی کے آثار نہیں، نظر میں کوئی چاہ نہیں، سوچ میں معصومیت اورکھلنڈرے پن کے سوا کچھ بھی نہیں۔
جرگے میں بڑھاپے کی کھٹنائیوں کو جھیلتے، زندگی کو اپنی مرضی سے برتنے کے بعد تھکے ہارے سیاہ دل چالیس پچاس مردوں کا اجتماع ہے۔ایک طاقت کےزعم میں مبتلا، جری مرد قتل کر کے اس کی سزا سے خوفزدہ ہے اور جرگے سے معافی کا خواستگار ہے۔ بدلے میں ‘کچھ بھی’ کرنے کو تیار ہے۔
یہ ‘کچھ بھی’ اس کی آٹھ سالہ ننھی منی بہن ہے جو باہر گلی میں تتلیوں کے تعاقب میں بھاگ رہی ہے۔ من میں عجیب سی سرخوشی سمائی ہے اور سوچتی جاتی ہے، آج نہ معلوم بھائیا مجھے کیوں ایسے دیکھتا تھا، اماں کیوں سہمی جاتی تھی اور ابا بھائیا کی بات پہ سر اثبات میں ہلاتا تھا۔
لیجیے پتھر دل انسانوں نے فیصلہ سنا دیا۔ معافی کے بدلے میں قربانی چاہیے اور وہ بھی گھر کی عورت کی۔ کیا ہوا جو بچی ہے؟ جنسی اعضا تو رکھتی ہے نا۔ بھیڑ بکریوں جیسی استعمال کی چیز ہے، جیسے جانور منڈی میں بکتے ہیں ویسے ہی یہ لڑکی بھی۔ کیا ہوا جو بہن ہے؟ بہنوں نے ہی تو بھائیوں کی جھوٹی عزتوں کی لاج رکھنی ہوتی ہے۔
اب رخصتی ہونا ہے آٹھ سالہ بچی کی گھر سے۔ کچھ ڈھلتی عمر کے شقی القلب سودا طے ہونے کے بعد سوارہ لڑکی لینے آئے ہیں۔ مذہب سے کھیلنے والا مولوی بھی ہمراہ ہے جو اس سارے عمل کو جائز بنائے گا اور ایک گڑیا، ہاتھوں پہ تتلیوں کے رنگ لئے، بغل میں گڑیا دبائے ایک اور مالک کے حوالے کی جائے گی۔ جس کی غلیظ مسکراہٹ اس کے مذموم ارادوں کی خبر دیتی ہے۔ اس نے بیچ پنڈال میں ایک لڑکی جیتی ہے جو اسے بھینٹ چڑھائی گئی ہے۔ اس کے جنسی ارادوں میں وہ معصوم جان کی بازی بھی ہار گئی تو کسے پرواہ، لڑکی ذات ہی تو ہے، اسی قابل ہے۔
ہمیں شکوہ ہے اپنے معاشرے کے ان سب مردوں سے جو یہ خبر یں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور سنی ان سنی کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
ہمیں شکایت ہے نظام مصطفی کی بات کرنے والوں سے کہ کبھی ان جرگوں کے نظام پہ بھی نظر ڈال لیجیے۔
ہمیں افسوس ہے ان تمام تبلیغی علما سے جو جنت کی حوروں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے، کاش اپنے اردگرد ان مسل دی جانے والی کلیوں کی بھی بات کر لیں۔
ہمیں مایوسی ہے ریاست مدینہ کی مالا جپنے والوں سے کہ کبھی اپنی ریاست کی ان تاریک راہوں میں سے گزرنے کا حوصلہ تو کریں۔ ریاست مدینہ زبانی کلامی نہیں بنا کرتی، اس کے لئے انصاف کی صلیب بغیر کسی مفاد کے اٹھانا پڑتی ہے ۔
اگلے زما نے کا مورخ یہ داستانیں پڑھ کے ایک سوال ضرور پوچھے گا،
“کیا واقعی یہ لوگ اپنے آپ کو انسان سمجھتے تھے؟”