ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن میں تھائی ریستوران THE GOLDEN THAI
ٹورانٹو کے اپ ٹاؤن میں ایرانی ریستوران ZAFFRON
چنانچہ ایڈرئینا اور میں نے ایرانی ریستوران میں ڈنر کیا۔ ڈنر کے بعد ایڈرئینا نے مجھے تین تحفے دیے۔
”ہم سب“ کے کالم لکھنے کے لیے کالا قلم جس سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔
QUALITY STREET کے میرے پسندیدہ چاکلیٹ
اور
PINK FLOYD کا سی ڈی THE WALL
آج سے چار سال پیشتر ایڈرئینا نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کرسمس پر میرے لیے کیا تحفہ خریدے۔ میں نے کہا آپ ہر سال میرے لیے ایک سی ڈی خرید لیا کریں۔ اسی لیے میں ہر سال انہیں اپنا پسندیدہ گانا اور موسیقار بتا دیتا ہوں اور وہ میرے لیے ایک سی ڈی خرید لیتی ہیں۔
پہلے سال کا پسندیدہ موسیقار GROVER WASHINGTON اور پسندیدہ گانا JUST THE TWO OF US
دوسرے سال کا پسندیدہ موسیقار NEIL DIAMONDاور پسندیدہ گانا
FOREVER IN BLUE JEANS
تیسرے سال کا پسندیدہ موسیقارPHIL COLLINSپسندیدہ گانا
ANOTHER DAY IN PARADISE
اور اس سال کا پسندیدہ بینڈ PINK FLOYDاور پسندیدہ گانا
ANOTHER BRICK IN THE WALL
یہ گانا اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ مندرجہ ذیل مصرعوں کی وجہ سے امریکہ میں چند سال بین رہا کیونکہ بہت سے اساتذہ اور سکولوں نے ان پر اعتراض کیا۔
WE DON ’T NEED NO EDUCATION WE DON ’T NEED NO THOUGHT CONTROL NO DARK SARCASM IN THE CLASSROOM TEACHERS LEAVE THE KIDS ALONE HEY TEACHERS LEAVE THE KIDS ALONE ALL IN ALL ITS JUST ANOTHER BRICK IN THE WALL ALL IN ALL YOU ’RE JUST ANOTHER BRICK IN THE WALL
اگر آپ چاہیں تو یو ٹیوب پر اس گانے کی وڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں۔
جیسے میری کنیڈین بیٹی ایڈرئینا میرے لیے انگریزی کی سی ڈی خریدتی ہیں اسی طرح میری پاکستانی بیٹی وردہ میر ہر سال میرے لیے اردو کی ایک سی ڈی خریدتی ہیں۔ انہوں نے پہلے سال پٹھانے خان، دوسرے سال عابدہ پروین، تیسرے سال نیرہ نور اور اس سال اے آر رحمان کی سی ڈی۔ تال۔ تحفے کے طور پر دی۔
ایڈرئینا اور وردہ جانتی ہیں کہ وہ میرے لیے بیٹیوں کی طرح ہیں۔ میں ان سے باپ کی طرح محبت کرتا ہوں ان کے ساتھ زندگی کے مسائل کے بارے میں تبادلہِ خیال کرتا ہوں۔ وہ مجھ پر اعتماد کرتی ہیں اور مجھ سے اپنے مسائل کے بارے میں مشورے کرتی ہیں۔
یہ ہماری دوستی کا راز ہے۔ وہ مجھ سے اور میں ان سے بہت کچھ سیکھتا ہوں۔
پچھلے سال جب میں اور میرے کزن نوروز عارف، جو میرے شاعر چچا عارف عبدالمتین کے بیٹے ہیں، کرسمس کے موقع پر ملے تو ان کے فنکار بیٹے سروش، جو نیویارک میں ایکٹنگ سیکھ رہے ہیں، مجھے سے ملنے آئے۔ کہنے لگے، سہیل انکل! مجھے دادا جان کے بارے میں کچھ بتائیں۔ میں بہت چھوٹا تھا جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
میں نے سروش کو عارف چچا کا ایک شعر سنایا جو آج بھی میرے فون کی آنسرنگ مشین پر لگا ہوا ہے۔
؎ جب کبھی آتے ہیں میرے پاس آپ
میں نکل جاتا ہوں کود کو ڈھونڈنے
میں نے سروش کو ان کے شاعر دادا کی ایک یک مصرعی نظم بھی سنائی
کتبہ
زیرِ زمیں گیا ہے وہ اپنے سراغ میں
میں نے سروش کو ان کے دانشور دادا جان کی بہت سی دانائی کی باتیں بتائیں اور کہا
”عارف عبدالمتین مرے چچا تھا۔ میں تمہارا چچا ہوں اور ایک دن تم کسی اور کے چچا بن جاؤ گے اور یہ دانائی کا ورثہ جو میں تمہیں دے رہا ہوں تم اگلی نسلوں تک منتقل کرو گے۔ اس دانائی کی وراثت پر مجھے بہت فخر ہے۔“
جب میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے بال سفید ہیں لیکن دل جوان ہے۔ اس کا کیا راز ہے تو میں مسکراتے ہوئے کہتا ہوں