سائنسدانوں نے ایک شہابیے کا تجزیہ کرتے ہوئے کرۂ ارض پر موجود قدیم ترین مادے کی دریافت کی ہے۔
انھیں سنہ 1960 کی دہائی میں زمین پر گرنے والی خلائی چٹان میں دھول گرد کے ذرات ملے ہیں جو کہ کم از کم ساڑھے سات ارب سال پرانے ہیں۔
قدیم ترین دھول یا گرد کے ذرات ہمارے نظام شمسی کے کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ستاروں میں وجود میں آ گئے تھے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
محققوں کی ایک ٹیم نے 'پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنس' نامی جرنل میں اپنے نتائج کو پیش کیا ہے۔
جب تارے یا ستارے مرتے ہیں تو ان میں بننے والے ذرات اچھل کر خلا میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ 'نظام شمسی سے قبل والے ذرات' پھر نئے ستارے، سیارے، چاند اور شہابیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔
اس تحقیق کے اہم مصنف اور شکاگو فیلڈ میوزیم کے کیوریٹر اور شکاگو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فلپ ہیک نے کہا کہ 'یہ ستاروں کے ٹھوس نمونے ہیں، حقیقی ستاروں کے غبار۔'
امریکہ اور سوئٹزرلینڈ کے محققوں نے سنہ 1969 میں آسٹریلیا میں گرنے والے مرچیسن شہابیے کے ایک حصے میں موجود نظام شمسی کے وجود میں آنے سے قبل والے 40 ذرات کی جانچ کی۔
فیلڈ میوزیم اور شکاگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کی شریک مصنف جینیکا گریر نے کہا 'یہ شہابیے کے پس کر پاؤڈر بن جانے والے حصے سے شروع ہوتا ہے۔
'جب تمام ٹکڑوں کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے تو یہ پیسٹ جیسی کوئی چیز ہوتا ہے اور اس کی مصالحے دار خصوصیت ہوتی ہے جو کہ سڑی ہوئی مونگ پھلی اور مکھن جیسی بو دیتا ہے۔'
اس بدبودار پیسٹ کو پھر تیزاب میں گھلایا جاتا ہے جس کے بعد صرف سٹارڈسٹ یعنی ستاروں کا غبار بچ جاتا ہے۔
فلپ ہیک نے کہا کہ 'یہ پیال کے ڈھیڑ کو جلا کر سوئی تلاش کرنے جیسا ہے۔'
یہ پتا چلانے کے لیے کہ یہ ذرات کتنے پرانے ہیں محقوقوں نے یہ پیمائش کی کہ وہ خلا میں کائناتی کرنوں کے سامنے کتنا رہے۔ یہ کرنیں اعلی توانائی والی ہوتی ہیں جو کہ کہکشاؤں سے گزرتی ہیں اور ٹھوس مادوں میں بھی داخل ہو جاتی ہیں۔
یہ کرنیں خود سے ٹکرانے والے مادوں سے رابطہ کرتی ہیں اور نئے عناصر بناتی ہیں۔ جتنی دیر تک یہ مادے کرنوں کے سامنے ہوتے ہیں وہ اتنے ہی عناصر بناتے ہیں۔ محققوں نے ذرات کی عمر کا پتہ چلانےکے لیے عناصر نیون کی خاص شکل (آئیسوٹوپ) این ایی 21 کا استعمال کیا۔
ڈاکٹر ہیک نے کہا: 'میں اس کا بارانی طوفان میں ایک بالٹی رکھنے سے موازنہ کرتا ہوں۔ یہ فرض کرتا ہوں کہ بارش مسلسل ہو رہی ہے اور پانی کی جو مقدار بالٹی میں جمع ہوتی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ بالٹی بارش میں کتنی دیر تک رہی۔'
اس میں جتنے نئے عناصر شامل ہوتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ذرات کتنی دیر کائناتی کرنوں کے رابطے میں رہے۔ اور یہ بتاتے ہیں کہ وہ کتنے پرانے ہیں۔
نظام شمسی کے پیدا ہونے سے قبل والے بعض ذرات دریافت ہونے والے قدیم ترین ذرات ثابت ہوئے۔
کتنی کائناتی کرنوں کے رابطے میں وہ آئے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر 4.6 ارب سے 4.9 ارب سال تک پرانے ہیں۔ موازنے کے طور پر بتا دیں کہ سورج 4.6 ارب سال پرانا ہے جبکہ زمین کی عمر 4.5 ارب سال ہے۔
بہر حال سب سے قدیم دریافت تقریبا ساڑھے سات ارب (7.5) سال پرانی ہے۔
مزید کی دریافت کی امید
ڈاکٹر ہیک نے بی بی سی کو بتایا: 'صرف دس فیصد ذرات 5.5 ارب سال سے زیادہ پرانے ہیں جبکہ 60 فیصد ذرات 'نوجوان' ہیں جن کی عمریں 4.6 ارب سال سے 4.9 ارب سال کے درمیان ہے اور باقی ماندہ قدیم ترین اور جدید ترین کے درمیان کے ہیں۔
انھوں نے کہا: 'مجھے یقین ہے کہ مرچنسن اور دوسرے شہابیوں میں نظام شمسی کے وجود سے قبل کے بہت سارے دھات ہیں جن کی ابھی تک ہم نشاندہی کرنے میں قاصر ہیں۔'
اس سے قبل قدیم ترین نظام شمسی سے قبل کے ذرات کی دریافت نیون آئسوٹوپ کے معیار پر 5.5 ارب سال کی ہوئی تھی۔
یہ دریافت اس مباحثے پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کیا نئے تارے مستقل شرح پر بنتے رہتے ہیں یا پھر وقت کے ساتھ نئے تاروں کے بننے میں رفتار میں کمی بیشی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر ہیک نے کہا: 'ان ذرات کی بدولت ہمارے پاس اب ہماری کہکشاں میں ستاروں کے وجود میں آنے کے وسیع زمانے پر پھیلے براہ راست شواہد ان شہابیوں کے نمونے میں موجود ہیں۔ یہ ہمارے مطالعے کی اہم دریافت ہے۔'
محققوں کا یہ بھی پتہ چلا کہ نظام شمسی سے قبل والے ذرات عام طور پر خلا میں ایک ساتھ چپ کر گرانولا کی طرح بڑے سے جھرمٹ کی شکل میں تیرتے تھے۔
فلپ ہیک نے وضاحت کی کہ 'کسی کو یہ خیال نہیں گزرا تھا کہ یہ اس سطح پر ممکن تھا۔'