ستاروں کی چال سے متعلق ایک پورا علم موجود ہے۔ کون سا ستارہ کس دائرے میں کتنا باثر؟ کس کے اثر میں کون سا گھر اور حاکم کس حلقے میں نظر رکھے؟ یہ سب علم نجوم سے دلچسپی رکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے۔
سنہ 2020 کے آغاز کے ساتھ ہی نظر آ گیا ہے کہ قمر، مریخ اور زُحل کی باہم تثلیث میں دراڑیں ہیں جبکہ قمر تیسرے گھر میں قیام کر سکتا ہے۔
علم نجوم میں تمام سرگرمیاں قمر سے منسلک اور وابستہ ہیں یعنی قمری تاریخیں اُس کے اردگرد گردشی ستاروں پر اثر انداز ہوتی ہیں جس سے ستاروں کی چالوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی سیاست کے کرداروں نے 2020 کے آغاز کے ساتھ ہی اپنا گھر بدلنا شروع کر دیا ہے۔ ن لیگ اپنے محور سے ہٹ کر دوسرے گھر میں اور دوسرا گھر تیسرے گھر میں منتقل کیے جانے کی کوششوں میں ہے۔
عاصمہ شیرازی کے مزید کالم بھی پڑھیے
آرمی ایکٹ کی ایک ترمیم نے جہاں پنجاب کی روایتی قیادت کو اپنے محور سے قریب کیا ہے وہیں حکومت کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
یوں تو ن لیگ کا فیصلہ جماعت کے اندر اندرونی اختلافات اور تقسیم کو جنم دے گیا ہے تاہم پارٹی میں موجودہ بحران سے باہر نکلنے اور سیاسی مواقع حاصل کرنے کی جستجو کا موقف بھی اُبھر رہا ہے۔
نواز شریف نے شاید یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ سیاسی حریف کو روایتی طریقے سے ہی چت کرنا پڑے گا۔
حال ہی میں ایم کیو ایم کےایک وزیر کا کابینہ سے الگ ہونا کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اشارہ ہو یا نہ ہو دباؤ اُٹھا لیا گیا ہے تاکہ آزاد فیصلوں کی راہ ہموار ہو۔
سندھ کے دو اہم اتحادی جی ڈی اے اور ایم کیو ایم شکایتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو پنجاب سے ق لیگ کی بڑھتی بے چینی، بلوچستان میں اتحادی جماعت میں بد اعتمادی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ، کہیں نو نکاتی مطالبات تو کہیں چھ نکاتی تحفظات موجودہ حکومت کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔
یقین دہانی کے لیے کہ ابھی حکومت کے خاتمے کی بات نہیں کی جا رہی۔۔۔ بلکہ صرف اتحادیوں سے اُٹھنے والے اس بوجھ کی بات ہو رہی ہے کہ جس سے وہ کم از کم عددی اعتبار سے کمزور حکومت سے اپنے مطالبات ضرور منوا سکتے ہیں۔
پنجاب کی بزدار سرکار سے صرف ق لیگ ہی نہیں بلکہ خود تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی ناراض ہو چکے ہیں۔ بقول ایک رکن قومی اسمبلی حالات یہی رہے تو اراکین کا اپنے حلقوں میں جانا محال اور سیاسی خودکشی کا امکان ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایسے میں کون سا ستارہ کس گھر میں گھر کر ے گا۔ عوام میں بڑھتی بے چینی اور معاشی اعشاریوں میں مستقل کمی بڑے گھر کو کسی طور قبول نہیں۔
حکومت تشکیل دیتے وقت یہ نہیں سوچا گیا تھا کہ موجودہ حکومت کارکردگی نہ دکھا پائی تو کیا ہو گا۔ عوامی دباؤ کا سامنا کون کرے گا؟
سیاسی منظر نامے پر متبادل کے لیے کوئی سوچ موجود نہ تھی مگر کسی طور یہ ممکن نہیں کہ کسی بھی ناکامی کا بوجھ مقتدروں کے سر آئے۔ ایسے میں متبادل کی تلاش حاکم کو کسی تیسرے گھر کا مکین بنا سکتی ہے۔
مفاہمت کی چال ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو بڑے گھر سے قریب کرسکتی ہے تاہم مہنگائی اور معاشی بحران کے شکار عوام کسی تبدیلی سے بہل سکتے ہیں یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے بیانیے سے دور ہو گئیں تو عوام نظام سے مزید بد اعتماد ہو جائیں گے اور اگر یہ سب اسی طرح چلتا رہا تو مملکت مزید بدانتظامی کی متحمل نہ ہو پائے گی۔
اسی لیے ستاروں کی چال کچھ تیز اور حاکم اپنی پوزیشن تبدیل کر سکتا ہے۔ امکان کے امکان کو کسی بھی قسم کی پیش گوئی نہ سمجھا جائے اور ستاروں سے مماثلت بھی محض اتفاق ہے۔ مشتری ہوشیار باش!