ایران کی عدلیہ کے مطابق گذشتہ ہفتے تہران کے قریب یوکرینی طیارے کو مار گرانے کے جرم میں کئی لوگوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ یوکرینی طیارے کو مار گرائے جانے کے ’المناک واقعے‘ کی جامع تحقیقات ہوں گی اور اس واقعے میں ملوث تمام ذمہ دار افراد کو سزائیں دی جائیں گی۔
منگل کو سرکاری ترجمان غلام حسین اسماعیل نے بتایا کہ ان افراد کو یوکرینی طیارے کو گرانے کے حوالے سے تحقیقات کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا ہے۔ تاہم انھوں نے مزید تفصیلات دینے سے گریز کیا۔
یاد رہے کہ آٹھ جنوری کو تہران ایئر پورٹ سے پرواز بھرنے کے آٹھ ہی منٹ بعد یوکرینی طیارہ، جس کی منزل یوکرین کا دارالحکومت کیئو تھی' زمین پر آن گِرا تھا۔ اس حادثے میں طیارے پر سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ابتدا میں ایران نے طیارہ گرائے جانے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا تاہم 11 جنوری کو ایران نے اعتراف کرتے ہوئے اسے ’انسانی غلطی‘ قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
ایرانی حکام کے مطابق یوکرین کی مسافر بردار فلائیٹ پی ایس 752 کو آٹھ جنوری کو ایک فضائی دفاعی آپریٹر نے اس وقت مار گرایا جب وہ غلطی سے اسے کروز میزائل سمجھ بیٹھا۔
ترجمان نے منگل کو یہ بھی کہا کہ اس المناک واقعے کی ذمہ داری صرف اس شخص پر ڈالنا بھی غلط ہے جس نے میزائل لانچ کیے۔
اپنے خطاب میں صدر روحانی نے بھی کچھ ایسی ہی بات کی تھی۔ ان کے مطابق فضائی دفاعی آپریٹر جس نے گذشتہ ہفتے غلطی سے یوکرینی مسافر بردار طیارے کو میزائل داغ کر مار گرایا تھا وہ واحد شخص نہیں ہے جو اس واقعے کا ذمہ دار ہے۔
حکومت کے ترجمان نے کہا: ’ایران افواج کی جانب سے اپنی غلطی تلیم کرنا ایک اچھا پہلا قدم ہے۔ ہم عوام کو یقین دہانی کروانا چاہتے ہیں کہ ایسا پھر کبھی نہیں ہوگا۔‘
برطانوی وزیر اعظم کا ایرانی اعتراف کا خیر مقدم
ادھر برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن نے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے انھیں خوشی ہے کہ ایران نے یوکرینی طیارے کے معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے لیکن ان کے مطابق اس وقت سب سے ضروری بات یہ ہے کہ خطے میں کشیدگی میں کمی آئے۔
اس سوال پر کہ کیا ایران کو اس غلطی کے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، بورس جانسن نے کہا کہ جہاں تہران ایک سنگین غلطی کا مرکتب ہوا ہے وہیں ان کا ملک اس وقت کوئی ایسا قدم نہیں لے گا جس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔
دوسری جانب ایران کی عدلیہ نے تہران میں برطانوی سفیر راب میکیئر کی ایک حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کے بعد کو ’ناقابلِ قبول شخصیت‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانوی سفیر 11 جنوری کے روز تہران میں یوکرینی طیارے کی یاد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شامل ہوئے تھے جس کے بعد انھیں سکیورٹی فورسز نے کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا تھا۔
خصوصی عدالت
حسن روحانی نے باتیں انھوں نے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کی جانب سے منگل کو نشر کی جانے والی ایک تقریر میں کہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک خصوصی عدالت اس واقعے کی تحقیقات کرے گی۔
'عدالت ایک خصوصی عدالت کی تشکیل دے جس میں سینیئر جج اور بہت سے ماہرین کو شامل کیا جائے۔ یہ ایک عام اور معمول کا معاملہ نہیں ہو گا۔ پوری دنیا کی نظریں اس خصوصی عدالت پر ہوں گی۔'
انھوں نے کہا کہ 'ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص نے ٹریگر دبایا۔ دوسرے بہت سے ہیں جو ذمہ دار ہیں۔ چونکہ میں فضائی دفاعی نظام سے کچھ حد تک واقف ہوں اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ ایک شخص اس پورے واقعے کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔'
حسن روحانی کا کہنا تھا کہ 'یہ ایک نہ بھولنے والی غلطی تھی۔۔۔ صرف ایک فردِ واحد طیارے گرنے کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ایرانی افواج کی جانب سے غلطی کا اعتراف ایک پہلا اچھا قدم ہے۔۔۔ ہم لوگوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ایسا پھر نہیں دوہرایا جائے گا۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی حکومت ایرانی عوام اور بین الاقوامی برادری کو اس معاملے میں جوابدہ ہے۔
اس طیارے کے گرنے کی اطلاعات اس وقت ہی موصول ہونا شروع ہو گئی تھیں جب ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے جوابی کارروائی کے طور پر عراق میں موجود دو امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغنے شروع کیے تھے۔
واضح رہے کہ کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں متعدد ذرائع سے ملنے والی معلومات سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ طیارہ گذشتہ بدھ کو ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کا نشانہ بنا۔ جبکہ ایران نے ان الزامات کو مسترد کیا تھا تاہم بعد میں اقرار کر لیا۔