فرحین کی والدہ نے انھیں دلہن بنایا اور یہ بھی بتایا کہ اس شادی کے بدلے انھیں 25 ہزار روپے فی الوقت اور پانچ ہزار روپے ماہانہ ملا کریں گے۔ پھر ایک قاضی نے نکاح کے صیغے پڑھے اور ان کی شادی ہو گئی۔ فرحین کے مطابق جب انھوں نے اس شخص کو تنہائی میں دیکھا تو اس کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی۔ انھوں نے بتایا ‘اس رات جب میں روئی تو وہ مجھ پر چڑھ دوڑا اور پھر وہ مجھے تین ہفتے تک ریپ کرتا رہا۔’
اس کے بعد اس شخص نے فرحین سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ اردن چلے اور اس کی وہاں موجود بیویوں اور بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ فرحین کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ شخص پہلے سے شادی شدہ تھا۔ ان کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ وہ شخص واپس جا کر فرحین کو بلانے کے لیے کاغذات بھیجے گا مگر وہ ویزا کبھی نہیں آیا۔
اس واقعے کو آٹھ سال گزر گئے لیکن فرحین ابھی بھی غمزدہ ہیں۔ ہماری اُن سے ملاقات ایک غیر سرکاری تنظیم کے دفتر میں ہوئی جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘بوڑھے شخص سے شادی کرنے پر رشتے داروں نے مجھ پر تنقید کی اور بعض نے کہا کہ اپنے شوہر کی خواہشات کی تسکین نہ کر سکی اس لیے مجھے چھوڑ دیا گیا۔’
گذشتہ تین برسوں میں تلنگانہ پولیس سٹیشن میں فرحین کا مقدمہ وہاں درج کروائے گئے 48 کیسز میں سے ایک ہے۔ پولیس سٹیشن میں شکایت درج کروانے کے بعد شادی کرنے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
زیادہ تر شیخ عمان، قطر، سعودی عرب اور یمن سے آتے ہیں۔ بہت سے شادیوں میں تو یہ لوگ ہندوستان بھی نہیں آتے ہیں۔
15 سالہ زہرہ یتیم ہیں اور اپنی دادی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی چچی نے انھیں فروخت کرنے کے مقصد کے تحت سوشل میڈیا پر ان کی تصویر استعمال کی تھی۔ زہرہ کہتی ہیں: ‘اس رات ایک قاضی آیا اور اس نے گھر سے ہی فون کے ذریعے نکاح پڑھ دیا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میری کس کے ساتھ شادی ہو رہی تھی۔
اس کے بعد ویزا آیا اور وہ یمن پہنچیں جہاں ایک 65 سالہ شخص نے خود کو شوہر کے طور پر پیش کیا۔ اس کے بعد وہ شخص انھیں ہوٹل میں لے گیا۔ زہرہ نے بتایا کہ اس شخص نے ان کے ساتھ زبردستی کی اور اس کے بعد اس نے انھیں حیدرآباد واپس بھیج دیا۔
فرہین اور زہرہ جیسی لڑکیوں کا استعمال کرکے انھیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شاہین نام کے این جی او کی سربراہ جمیلہ نشت اس طرح کی خواتین کی مدد کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ جس مسلم علاقے میں وہ کام کرتی ہیں وہاں ایک تہائی خاندانوں نے پیسے لے کر اپنی بیٹیوں کی شادی کی ہے۔ جمیلہ کا کہنا ہے کہ ‘زیادہ تر خاندان غربت زندگی بسر کر رہے ہیں اور سکول سے ملنے والے کھانے پر بچوں کا گزر بسر ہے۔’
لوگ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ پیسے کے لیے ایسا کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ سماجی رسم ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے لیکن ایک کہانی اور بھی دل ہلا دینے والی ہے۔