تعلیم کا وظیفہ کیا ہے: محض ماہرینِ فن تیار کرنا یا ابنِ آدم کو انسان بنانا؟ اس کے علم و عمل کا تزکیہ یا اس سے بے نیازی؟سیدنا یوسفؑ سے جیل کے ساتھیوں نے خواب کی تعبیر پوچھی تو فرمایا ”تمہارا کھانا آنے سے پہلے میں تمہارے خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے عطا فرمایا ہے…‘‘ (سورہ یوسف) سیدنا یوسفؑ نے پہلے توحید کے بارے میں اپنی دعوت قیدیوں کے سامنے رکھی اور پھر ان کے خواب کی تعبیر بتائی۔ سیدنا مسیحؑ نے دریا میں جال پھیلائے لوگوں کو دیکھا تو انہیں مخاطب کیا: ماہی گیرو! آؤ، میں تمہیں مردم گیر بنا دوں۔
یہ انبیا کی سنت ہے کہ وہ امورِ دنیا کی تعلیم کو اپنے بنیادی مشن، انسان سازی سے جوڑ دیتے ہیں۔ انبیا ایسے انسان تیار کرنا چاہتے ہیں جو پیشہ ورانہ شناخت سے قطع نظر، خدا کے حضور میں جوابدہی کے احساس کے ساتھ جیتے ہوں۔ یہ محض انبیا کے پاکیزہ مقصد کی بات نہیں، دنیادار بھی اپنے مقاصد کے تحت یہی کرتے ہیں۔ مغرب نے کیا کیا؟ تعلیم کوایک خاص طرح کے انسان بنانے کی خدمت پر لگا دیا۔ تعلیم کو اُس نظامِ اقدار کا خادم بنا دیاجس کی بنیاد پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ انسان سازی پہلے، طب اور وکالت کی تعلیم بعد میں۔
تعلیم دوطرح کی ہے۔ رسمی اور غیر رسمی۔ رسمی، جو تعلیم کے لیے قائم اداروں میں دی جاتی ہے۔ غیر رسمی، جو سماجی ادارں سے ملتی ہے۔ ہماری رسمی تعلیم، یہ دنیا کی ہو یا دین کی، اپنے تئیں ماہرین تیار کرتی ہے، انسان نہیں۔ یہ تعلیم کسی نظامِ اقدار، کسی تصورِ اخلاق کے تابع نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ڈاکٹر ہیں اور وکیل بھی۔ شیخ التفسیر بھی اور شیخ الحدیث بھی۔ اخلاقی سطح پرکبھی ان میں کوئی فرق تلاش نہیں کیاجا سکا، الا ما شااللہ۔ میرے ایک صحافی دوست نے ایک دین دار کا نام لے کربتایا کہ فحش میسج بھیجنے میں کوئی ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
غیر رسمی تعلیم کا مصدر سماجی ادارے ہیں۔ گھر، خاندان، مکتب، مسجد، محلہ، چوپال۔ یہ روایتی ادارے ہیں۔ ان میں کچھ جدید ادارے بھی شامل ہوگئے ہیں جیسے ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا۔ یہ بھی لوگوں کی تعلیم اورتربیت کرتے ہیں۔ یہ سب مل کر انسان سازی کرتے ہیں۔ ہماری شخصیت کو ان اداروں نے بنایا ہے۔ اس کی تہذیب کی ہے۔
جب کوئی لکھتا ہے تو موضوع کے چناؤ سے لے کر، الفاظ و اسلوب کے انتخاب تک، اس تعلیم کا اظہار ہوتا ہے جو اسے ان رسمی یا غیررسمی تعلیم کے اداروں سے ملی۔ وہ اپنے تجزیے میں اتنا ہی دیانت دار ہو گا جتنی دیانت اسے سکول میں سکھائی گئی‘ اتنا ہی شائستہ ہو گا جتنی شائستگی اس نے اپنے گھر میں دیکھی۔ وہی علم معاشرے کو منتقل کرے گا جو اسے ان اداروں سے ملا۔ یہ ہمارا علم ہو یا اخلاق، سب انہی اداروں کی دَین ہے۔ علامہ اقبال کو سر کا خطاب ملا تو اصرار کیا کہ پہلے میرے استاد میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ پوچھا گیا: ان کی کوئی تصنیف؟ کہا: ان کی تصنیف میں ہوں۔ یہ ایک ‘تصنیف‘ ایسی تھی کہ کئی کتب خانوں پر بھاری تھی۔ مان لیا گیا کہ اسکا مصنف کوئی ‘شمس العلما‘ ہی ہو سکتا ہے۔
ہر باپ، ہر ماں، ہر استاد، ہر عالم، ہر لیڈر، ہر محرر، ہرمقرر، تعلیم اور تربیت کا وظیفہ سرانجام دے رہا ہے۔ ہر بچہ غیر محسوس طریقے سے اپنے والدین کا نقال ہوتا ہے۔ ہر طالب علم اپنے استاد کا نمونہ ہوتا ہے۔ ہر سیاسی کارکن اپنی شخصیت میں اپنے لیڈر کا عکس دیکھناچاہتا ہے۔ یہ کبھی ارادی ہوتا ہے اورکبھی غیرارادی۔ استثنا یقیناً ہر جگہ ہوتا ہے مگر عمومی طور پر اسی طرح رویے پروان چڑھتے ہیں۔
میں نے بہت سے خطیبوں کو دیکھا کہ تقریر کے میدان میں قدم رکھنے والوں نے دانستہ یا نادانستہ ان کی نقالی کی۔ ان جیسا بننا چاہا۔ یہی سیاست میں دیکھا اور یہی دیگر شعبوںمیں بھی۔ بڑے لوگ، ایک دن اپنامنفرد انداز بنالیتے ہیں مگر اثر بہرحال قبول کرتے ہیں۔ مولانا مودودی کے قلم پرایک عرصہ مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب کا سایا رہا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ وہ خود صاحبِ اسلوب ٹھہرے۔
مولانا مودودی لیڈر بھی تھے مگر سیاست وآدابِ زندگی میں ان کا انداز اپنانا سہل نہیں تھا۔ حکیم سرو سہارن پوری مرحوم ایک عالم اور بہت اچھے شاعر تھے۔ جماعت اسلامی کے ابتدائی افراد میں سے تھے۔ وہ پان کھاتے تھے۔ ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ پوری احتیاط کے باوجود میں اپنے لباس کو پان کے داغوںسے محفوظ نہیں رکھ پاتاتھا۔ مولانا مودودی بھی پان کھاتے تھے۔ حکیم صاحب کہنے لگے کہ میں نے سوچا‘ یقیناً مولانا کا لباس بھی اس سے محفوظ نہیں رہتا ہوگا اس لیے میں جب بھی ان سے ملتا، ان کے لباس پر پان کے نشانات تلاش کرتا مگرمجھے ہمیشہ مایوسی ہوتی۔ جب مجھے لگا کہ میں مولانا جیسی احتیاط نہیں کر سکتا تو میں نے پان کھانا چھوڑ دیا۔ سرو صاحب مولانا کی طرح ہمیشہ سفید لباس پہنتے تھے۔
پروفیسر ابومسعود حسن علوی مرحوم ہمارے علاقے، تھانہ چونترہ کے ایک بڑے عالم تھے۔ ‘تفسیر لغت القرآن‘ ان کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔ میرے استادبھی تھے۔ عربی کے ابتدائی اسباق میں نے ان سے پڑھے۔ وہ خود میرے والدِ گرامی کے شاگرد تھے۔ میرے والد ان کے گاؤں سروبہ میں پڑھاتے تھے۔ یہ ہمارے گاؤں سے چند میل کی مسافت پر ہے۔
میرے والد کے پاس سواری کے لیے پہلے ایک گھوڑی تھی، بعد میں سائیکل نے اس کی جگہ لے لی۔ وہ بھی ہمیشہ سفید لباس پہنتے تھے۔ اس دور میں راستے کچے تھے جن سے گزر کر وہ سکول جاتے۔ علوی صاحب بتاتے ہیں کہ ان کے کپڑے ہمیشہ صاف ہوتے۔ طالب علم جماعت میں ایک دوسرے سے حیرت کا اظہار کرتے کہ اتنی مسافت کے بعد، یہ صاف کیسے رہ سکتے ہیں۔ آخر اس پر اتفاق ہوا کہ وہ ضرور اپنے کپڑے سکول کے پاس، جھاڑیوں میں چھپاجاتے ہیں اور سکول آنے سے پہلے تبدیل کر لیتے ہیں۔
ہم جس عہد میں زندہ ہیں،اس کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ انسان کو صرف ایک مادی وجود سمجھتا ہے یا پھر چند جبلتوں کا مجموعہ۔ وہ اسے ایک اخلاقی وجود تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں۔ یوں اس کی تگ ودو کا محور اس کے مادی وجود کی بقا اور جبلتوں کی تسکین ہے؛ تاہم ترقی یافتہ معاشروں کو یہ اندازہ ہے کہ مادی وجود کی بقابھی ایک نظامِ اخلاق کا تقاضا کرتی ہے۔ انسان کا ایک شعور بھی ہے اورجمالیاتی حس بھی۔ یوں یہ معاشرے ایک نظامِ اخلاق یا نظامِ اقدار کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہے۔ انہوں نے ایک تصورِ انسان اختیارکیا اور پھراپنے سماجی وسیاسی اداروں کواس کے حفاظت اور تعمیر پر لگادیا۔
ایک مذہبی معاشرہ ہوتے ہوئے،ہمارے لیے لازم تھا کہ ہم الہامی ہدایت کے تابع ایک تصورِانسان اختیار کرتے اورپھر اس کی تیاری کے لیے ایک نظامِ اخلاق ترتیب دیتے۔ہم نہ صرف یہ کہ اس میں ناکام رہے بلکہ ہم اس سے بڑے المیے سے دوچار ہوگئے۔ بجائے مذہب سے ایک تصورِ اخلاق کشید کرنے کے، ہم نے مذہب اور اخلاق کے باہمی رشتے ہی کوکاٹ ڈالا۔ مذہب کو ایک عصبیت بنادیا۔ ہمارے مذہبی فکر میں، اب یہ ایک اجنبی چیز ہے کہ مذہب کا اصل وظیفہ انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر ہے۔ یوں ہمارے معاشرے میں کوئی مذہبی شناخت رکھتا ہو یا غیرمذہبی،دونوں کی اخلاقی شناخت ایک ہی ہے۔
اگرہمارا کوئی تصورِ اخلاق ہوتا تو ہماری رسمی اورغیر رسمی تعلیم ان کی خدمت کے لیے وقف ہوتی۔ گھر سے لے کر میڈیا تک،سب اسی کے فروغ کے لیے لگے ہوتے۔ استاد کیمسٹری کا ہوتا یا تفسیر کا،اسے طالب علم کی اخلاقی تعلیم کا بھی خیال ہوتا۔کوئی عالم ہوتایا ڈاکٹر، اپنے اخلاقی وجودسے بے نیازنہ ہوتا۔ کوئی سیاسی لیڈر ہوتا یا کالم نگار،اس باب میں حساس ہوتا کہ لوگ اس سے سیکھ رہے ہیں۔
یہ تو عموم کا معاملہ ہے۔ اس میں ہم جیسوں کااستثنا بھی ہے۔قدرت نے کرم کیا اور ایک استادکے دروازے پر لاکھڑا کیا۔ قدم اندر رکھا تو علم اور اخلاق کا ایک بہتادریا دیکھا۔اس بے مائگی کا کتنا ماتم کیا جائے کہ بس انگلیوں کی پوریں ہی گیلی ہو سکیں! اب تنہائی میں ایک حسرت بھری آواز سنتا ہوں:
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو
بشکریہ روزنامہ دنیا