چینی لڑکی ہوایان کا انتقال: بھائی کو خوراک مہیا کرنے کے لیے خود غذائی قلت کا شکار ہونے والی بہن انتقال کر گئی


ماں کی ہلاکت کے بعد اپنے چھوٹے بھائی کو خوراک مہیا کرنے کے لیے خود کو غذائی قلت کا شکار کرنے والی چینی لڑکی انتقال کر گئی ہیں۔
ہوایان جب چار برس کی تھیں تو ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا اور جب وہ سکول جانے لگیں تو ان کے والد بھی اس دنیا میں نہ رہے۔
چوبیس سالہ ہوایان غذائیت کی شدید کمی کا شکار تھیں اور وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے بیمار بھائی کی بھی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
گزشتہ برس جب ان کی تصاویر پہلی بار چینی میڈیا میں سامنے آئیں تو دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اس وقت اس کا وزن محض بیس کلو تھا۔
انہیں سانس لینے میں مسائل لاحق تھے جس کی وجہ سے انہیں گزشتہ برس اکتوبر میں ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔
ہوایان کی داستان منظر عام پر آنے کے بعد ہر طرف سے ان کی مدد کے لیے رقم بھیجی جانے لگی۔ ہوایان کے بھائی نے صحافیوں کو بتایا کہ پیر کو ہوایان انتقال کر گئیں۔
ہوایان نے مقامی اخبار مارننگ پوسٹ کو بتایا تھا کہ پیسوں کی قلت کی وجہ سے ان کے والد اور دادی علاج نہ کروا سکے اور ان کی ان موت کے بعد انہوں نے اپنی کہانی میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں مدد حاصل ہو سکے۔
اس نے کہا تھا کہ ’میں وہ نہیں دیکھنا چاہتی جب غربت کی وجہ سے آپ موت کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘
ہوایان کے بھائی کا نام میڈیا میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
گزشتہ برس ہوایان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ پانچ برس تک بہت کم خوراک ملنے کی وجہ سے انہیں دل اور گردے کے امراض لاحق تھے۔
جب ہوایان کو امداد حاصل ہوئی
گذشتہ برس وو ہوایان کی کہانی منظر عام پر آنے کے بعد چین بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ تاہم خبر منظر عام پر آنے کے بعد پانچ سال تک 20 سے 30 پینی یومیہ پر زندگی گزارنے والی چینی طالب علم کو ان کے خیر خواہوں نے سوا لاکھ ڈالر کی رقم امداد میں دی۔
24 برس کی ہوایان غذائیت کی شدید کمی کا شکار تھیں اور وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنے بیمار بھائی کی بھی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔
ہوایان کی کہانی منظر عام پر آنے کے بعد حکام کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ اس لڑکی کی مدد کرنے میں حکام کو اتنا وقت کیوں لگا۔
یہ بھی پڑھیے

ہوایان کی کیا کہانی ہے؟

گزشتہ برس چینی میڈیا نے ایک لڑکی کی رپورٹ نشر کی جسے سانس لینے میں تکلیف کا سامنا تھا۔
اس لڑکی کا قد چار فٹ پانچ انچ تھا اور وزن صرف 20 کلو تھا۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ انھیں گردے اور دل کی بیماری لاحق ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پانچ سال سے کھانا انتہائی کم مقدار میں کھا رہی تھیں۔

چین
Getty Images

یہ لڑکی ایسا اس لیے کر رہی تھی تاکہ وہ اپنے بیمار بھائی کے علاج کے لیے پیسے بچا سکے۔
ہوایان جب چار برس کی تھیں تو ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا اور جب وہ سکول جانے لگیں تو ان کے والد بھی اس دنیا میں نہ رہے۔
ہوایان اور ان کے بھائی کی مدد ان کی دادی اور بعد میں ان کے رشتہ داروں نے کی جو انھیں ہر ماہ 300 یوان یا 30 ڈالر دیتے تھے۔
اس میں سے زیادہ تر پیسے ہوایان کے چھوٹے بھائی کے ہسپتال کے خرچ پر لگ جاتے اور ہوایان کے پاس اپنے کھانے کے لیے صرف دو یوان یا 44 روپے بچتے۔ ان پیسوں سے وہ صرف چاول اور مرچیں کھا کر گزارا کرتیں تھیں۔
ان دونوں کا تعلق گوئیژو سے ہے جس کا شمار چین کے غریب ترین صوبوں میں ہوتا ہے۔

چین
Getty Images

اس پر کیا ردِ عمل آیا؟

اس کہانی کے منظر عام پر آنے کے بعد ہوایان کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی۔ کئی صارفین نے سوال کیا کہ ہوایان کے کالج نے ان کی مدد کیوں نہیں کی۔
ایک صارف نے یہ تک کہا کہ ہوایان کی حالت افغانستان میں بسنے والے پناہ گزینوں سے بھی بدتر ہے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ چین کے پاس اپنی 70ویں سالگرہ کی تقریبات کے لیے رقم ہے لیکن ہوایان جیسے غریب لوگوں کے لیے نہیں۔
بہت سے لوگوں نے ہوایان کے اپنے بھائی کی مدد کرنے اور ساتھ ہی اپنی تعلیم جاری رکھنے کے عزم کو سراہا۔
دنیا بھر سے موصول ہونے والی مالی امداد کے علاوہ ہوایان کے اساتذہ اور سکول میں ساتھیوں نے ان کے لیے پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم کا عطیہ دیا۔
چینی حکام نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہوایان کو حکومتی خزانے سے ماہانہ تین سے 700 یوان کے درمیان رقم دی جائے گی تاہم انھیں ہنگامی امداد کی مد میں 20 ہزار یوان دیے گیے۔