میں اپنی زندگی میں نجانے کتنے ایسے مردوں اور عورتوں سے مل چکا ہوں جو نہیں جانتے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ ان کے دل میں
نہ کوئی آس ہے نہ کوئی امید
نہ کوئی آرزو ہے نہ کوئی تمنا
نہ کوئی آدرش ہے نہ کوئی خواب
وہ اپنی بے مقصد زندگی کی وجہ سے اداسی اور غم کا شکار ہو گئے ہیں اور دکھی دکھائی دیتے ہیں۔ اب وہ زندگی کی بہت سی نعمتوں اور تحفوں سے محظوظ بھی نہیں ہوپاتے
نہ اچھے کھانوں سے نہ اچھے کپڑوں سے
نہ اچھی کتابوں سے نہ اچھے نغموں سے
نہ اچھی فلموں سے نہ اچھے دوستوں کی محفلوں سے
ان کی زندگی حد سے زیادہ بورنگ ہو گئی ہے۔ بعض دفعہ تو یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ جی نہیں رہے صرف سانس لے رہے ہیں۔
میں جب ایسے لوگوں سے ملتا ہوں تو انہیں DR VICTOR FRANKLکی کہانی سناتا ہوں۔
ڈاکٹر وکٹر فرینکل ایک ماہرِ نفسیات تھے جنہوں نے زندگی کے کئی سال ہٹلر کی جرمنی کے concentration camps میں گزارے کیونکہ ان کا تعلق ایک یہودی خاندان سے تھا۔ ان عقوبت خانوں میں ان کے خاندان کے کئی لوگوں کو مار دیا گیا۔ ڈاکٹر فرینکل نہ صرف زندہ رہے بلکہ رہا ہونے کے بعد انہوں نے ایک نیا فلسفہ اور طریقہِ علاج دریافت کیا جو Logotherapyکہلاتا ہے۔ یہ فلسفہ زندگی کو بامعنی بنانے کا فلسفہ ہے۔ انہوں نے ایک کتاب بھی تخلیق کی جس کا نام MAN ’S SEARCH FOR MEANINGہے۔ اس کتاب میں ان طریقوں کا ذکر ہے جن سے انسان اپنی زندگی کو بامقصد بنا سکتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کی تحقیق نے ہمیں بتایا ہے کہ سو مریض جو کسی کلینک یا ہسپتال سے اپنے نفسیاتی مسائل کے بارے میں رجوع کرتے ہیں ان میں سے اسی مریض تو اینزائیٹی یا ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان میں سے بیس زندگی کی بے معنویت سے نبردآزما ہورہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بے مقصد زندگی کی وجہ سے ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ادویہ سے نہیں لوگو تھیریپی سے اپنی زندگی میں مقصد تلاش کر کے ایک صحتمند اور خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔
جو لوگ مجھ سے میری بامقصد ’خوشحال اور پرسکون زندگی کا راز پوچھتے ہیں تو میں انہیں اپنی کہانی سناتا ہوں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ جب میں نوجوان تھا تو پشاور میں عید گاہ کے پاس رہتا تھا۔ ایک شام اپنے گھر کے قریب دریا
کے کنارے سیر کر رہا تھا۔ اس سیر کے دوران مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ یہ احساس ہوا کہ میری زندگی ایک تحفہ ہے اور مجھے اختیار ہے کہ میں اس تحفے کو ضائع کروں یا اسے بامعنی اور بامقصد بناؤں۔ اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے میں نے چار خواب دیکھے اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی کوشش کی۔
میرا پہلا خواب ایک ڈاکٹر بننے کا تھا۔ میرا خواب تھا کہ میں تیس برس کی عمر تک ماہرِ نفسیات بن جاؤں اور پھر تیس برس دکھی انسانیت کی خدمت کروں۔
میرا دوسرا خواب ایک رائٹر بننے کا تھا۔ میری خواہش تھی کہ جس طرح میں اپنے پسندیدہ ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی کتابیں لینے لائبریری جاتا ہوں اس طرح ایک دن سکولوں ’کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات میری کتابیں لینے لائبریری جائیں۔
میرا تیسرا خواب دنیا کی سیر کرنے کا تھا۔ میں تاریخ اور جغرافیہ کی کتابیں پڑھنے کی بجائے دنیا کے مختلف ملکوں اور معاشروں میں جانا چاہتا تھا اور ان کے باسیوں سے ملنا چاہتا تھا۔
میرا چوتھا خواب دنیا کی مختلف ثقافتوں کے دوست بنانا تھا تا کہ میں ان سے مختلف روایتوں کے فنونَ لطیفہ اور دانائی کی باتیں سیکھ سکوں۔
اب جبکہ میری زندگی کی شام آ گئی ہے اور میں اپنے ماضی کی طرف نگاہ اٹھاتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں ایک ایسا خوش قسمت انسان ہوں جس کے تمام خواب شرمندہِ تعبیر ہوئے۔
میرا پہلا خواب اس وقت پورا ہوا جب میں نے کینیڈا کی میموریل یونیورسٹی میں نفسیات کی چار سال تعلیم مکمل کرنے کے بعد FRCPکی ڈگری حاصل کی۔ یہ حسں اتفاق ہے کہ وہ ڈگری مجھے اپنی تیسویں سالگرہ سے تین ہفتے پہلے ملی اور اب میں تیس برس سے دکھی انسانیت کی خدمت کررہاہوں۔
میرا دوسرا خواب اس وقت شرمندہِ تعبیر ہوا جب میں نے تیس کتابیں لکھیں اور دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ شبانہ خاتون نے میرے افسانوں پر اپنا ایم فل کا تھیسیس لکھا اور چھپوایا اور کینیڈا میں ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لیے تیار کردہ عالمی ادب کی اینتھالوجی GLOBAL SAFARIمیں میرا افسانہ ISLANDشامل کیا گیا۔
میرا تیسرا خواب اس وقت پورا ہوا جب میں نے 1980 کی دہائی میں کینیڈین پاسپورٹ پر جنوبی افریقہ اور اسرائیل کا سفر کیا جو میں پاکستانی پاسپورٹ پر نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بعد میں نے شمالی اور جنوبی امریکہ ’یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے مختلف شہروں کا سفر کیا۔
میرا چوتھا خواب اس وقت شرمندہِ تعبیر ہوا جب میں نے 2002 میں کینیڈا میں ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر FAMILY OF THE HEARTبنائی۔ اس کا آغاز سات دوستوں سے ہوا اور اب خانوادہِ دل کے ساری دنیا میں سات ہزار ممبر ہیں۔ ہم تواتر سے ادیبوں ’شاعروں‘ موسیقاروں اور دانشوروں کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں تا کہ نئے لکھنے والے اور بزرگ لکھنے والے آپس میں مل سکیں اور ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکیں۔
؎ فیض تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے
اگر آپ بھی اپنی زندگی کو بامقصد بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو بھی چند خواب دیکھنے ہوں گے اور پھر دوستوں اور بزرگوں کی مدد سے ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنا ہوگا۔ اس کوشش سے آپ خود بھی خوش رہیں گے اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں گے۔ اس طرح آپ انسانیت کی خدمت بھی کریں گے اور ایک پرامن معاشرہ تشکیل میں دوسروں کی مدد بھی کریں گے۔
اس طرح آپ زندگی میں ایک مثبت کردار ادا کر سکیں گے۔ امن اور آشتی ’اخوت اور محبت کے خواب دیکھنے اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے سے نہ صرف آپ کے دوست اور رشتہ دار بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ پر فخر کر سکیں گی۔