بچوں کی تربیت ایک بہت اہم اور حساس مسلئہ ہے۔ بچوں کی تربیت میں ماں باپ اور گھر کے سبھی افراد شامل ہوتے ہیں۔ بچے کی پہلی درس گاہ گھر اور ماں کی گود ہوتی ہے۔
ماں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن ہم باقی گھر والوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ گھر کے مکین ہی ہیں جو اپنے رویے اور عمل سے گھر کا ماحول بناتے ہیں۔
بچہ آنکھ کھولنے اور دنیا میں آنے سے پہلے ہی اپنی ماں کے توسط ماحول سے اردگرد کے لوگوں سے آشنا ہو جاتا ہے۔ اب اگر ماں حمل کے دوران پرسکون رہی ہو گی ’ذہنی پریشانیوں سے دور رہی ہو گی اور اس کے ساتھ ماں کی خوراک و آرام کا خیال رکھا گیا ہو گا تو بچے پر مثبت اثرات دیکھنے میں آئیں گے۔ اس کے برعکس اگر ماں کو ذہنی اذیت کا سامنا رہا ہوگا‘ لڑائی جھگڑے ’رونے دھونے‘ ذہنی ڈپریشن کا سامنا رہا ہوگا تو بچے پر بھی اس کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ بچے کی شخصیت بننے کا عمل اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
پھر جب وہ دنیا میں آتا ہے آنکھ کھولتا ہے اور نئی دنیا دیکھتا ہے تو پہلے دن سے ہی واسطہ اور بلا واسطہ سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ ماں باپ کے آپس کے تعلق کا بچوں کی تربیت اور شخصیت دونوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر دونوں کی آپس میں نہیں بنتی تو گھر میں انتشار رہتا ہے لڑائی ’جھگڑا تو‘ تو ’میں‘ میں ’اختلافات‘ نفرت و قدورت یہ سب بچہ سیکھتا چلا جاتا ہے۔ ماں کی باپ سے اور سسرال والوں کی نہیں بنتی تو ماں اپنا سارا غصہ یا فرسٹریشن بچوں پر نکالے گی۔
اگر ماں کی حیثیت گھر میں نوکر سی ہو گی ’اس کو کسی فیصلے میں شامل نہ کیا جاتا ہو گا اس کو عزت و احترام اور وقار نہ ملا ہو گا تو وہ اپنے بچوں کو یہ سب کیسے سکھائے گی۔ جب وہ خود کوئی فیصلہ نہ لے سکتی ہو تو بچے کو کیسے فیصلہ اور وہ بھی درست لینے کی ہمت دے گی یا ترغیب دے گی۔ اس کی شخصیت کی تعمیر کیسے کرے گی جبکہ اس کی اپنی شخصیت مسخ ہو رہی ہو۔
اسکے برعکس جن ماں ’باپ کی آپس میں بنتی ہے اور ان میں پیار محبت ہو گا اور سب سے بڑھ کر ان میں ذہنی ہم آہنگی ہو گی‘ وہ دکھ سکھ میں ساتھ رہتے ہیں خندہ پیشانی سے مسائل حل کرتے ہیں تو ان کے بچے مضبوط شخصیت کے مالک ہوں گے۔ اسی طرح وہ والدین ہیں جو الگ ہو جاتے ہیں وجہ جو بھی ہو ان کے بچے تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ماں باپ کا پیار اور ساتھ ’ایک ساتھ نہیں مل پاتا ان کی تربیت میں‘ شخصیت میں خلا رہ جاتا ہے۔
دوسری طرف وہ بچے ہیں جن کے ماں باپ میں سے کسی ایک کی وفات ہو جاتی ہے ان کی زندگی کی کہانی بھی اذیت ناک ہو جاتی ہے۔ اگر ماں یا باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں شادی کر لیں تب بھی بچے ہی برباد ہوتے ہیں۔ سوتیلی ماں تربیت نہیں کر پاتی اور دوسری طرف بہت کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں شادی نہ کرے اور بچوں کی خاطر ساری عمر گزار دے اور ان کی تربیت کرے لیکن ایسا اس کی معاشی حالت پر منحصر ہوتا ہے کہ کیسے وہ بچوں کی پرورش کرے گی ’کیسے وہ بچوں کی ضروریات پوری کرے گی‘ ضروریات میں روٹی ’کپڑا‘ تعلیم و دیگر اخراجات ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے وسائل کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری صورت میں ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاوند کے بغیر زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ تربیت تو ہو جاتی ہے لیکن دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مضبوط معاشی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ بچوں کی تربیت کی ساری ذمہ داری ماں پر ڈالی جاتی ہے۔ جبکہ بچے کی تربیت میں صرف ماں کو قصوروار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ اس میں سارے محرکات شامل ہوتے ہیں۔ اگر بچے میں کوئی عادت آگئی ہے تو ماں کو قصوروار ٹھہرانے کی بجائے جانچ پڑتال کرنی چاہیے کہ کہاں پر غلطی ہو رہی ہے۔ جتنا مضبوط ماں باپ کا آپس کا تعلق ہوگا اتنی ہی اچھی تربیت بچوں کی ہو گی اور بچے مضبوط شخصیت کے مالک اور اعتماد سے بھرپور ہوں گے۔
کم پیسوں میں گزارا ممکن ہے لیکن اگر آپس کا تعلق صحیح نہیں ہو گا تو گزارا ممکن نہیں۔ بچے وہ سیکھتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں نہ کہ وہ جو ان کو سکھایا جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھے کردار کے مالک ہوں سلجھے ہوئے ’مہذب اور سمجھدار ہوں تو ان کو ویسا بن کر دکھائیں‘ ان کو ویسا ماحول فراہم کریں۔ بچوں سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے ان کو وقت دیں اچھا اور معیاری ماحول دیں۔ بچے پیدا کرنا آسان ہے ان کو پالنا آسان ہے لیکن ان کی تربیت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ بچوں کی تربیت میں ماں باپ کے رشتے کی مضبوطی کا بہت اہم کردار ہے۔ اگر ہم کہیں غلطی کر رہے ہیں اور ہمیں احساس ہو گیا ہے تو فوراٗ اپنی غلطی کو سدھار لیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے کیونکہ وقت کبھی کسی کے لئے لوٹ کر نہیں آتا۔