فلمی موسیقی کی جب بھی بات کی جا ئے گی وہ غیر منقسم پاک و ہند کی فلموں سے شروع ہوگی۔ پاکستانی موسیقار ناشاد، فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے قیامِ پاکستان سے پہلے ہی مستند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں بھی بڑے نامور موسیقار اُبھرے جیسے : ماسٹر عنایت حسین، نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ، اے حمید، سگے بھائیوں کی جوڑی سلیم اقبال، حسن لطیف للک، موسیقار جوڑی بخشی وزیر، وزیر افضل، موسیقار جوڑی لال محمد اقبال، کریم شہاب الدین، خان عطا الرحمن خان، روبن گھوش، ایم اشرف، مصلح الدین، کمال احمد، موسیقار جوڑی غلام نبی عبداللطیف، رحمٰن ورما، تصدق حسین، طافو، امجد بوبی، سُبل داس، علی حسین، شمیم نازلی، دیبو بھٹہ چاریہ، نذر صابر صاحبان کی جوڑی، سہیل رعنا، آغا سرور اور جاوید میر صاحبان کی جوڑی المعروف جاوید سرور، اختر حسین اکھیاں، خلیل احمد، ماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے، نہال عبد اللہ، نذیر علی، طفیل فاروقی، وجاہت عطرے، واجد علی ناشاد، ماسٹر رفیق ( فلم دل لگی والے ) اور دوسرے۔
ان موسیقاروں کے علاوہ بھی ایک ایسا نام ہے جسے ”موسیقاروں کا موسیقار“ مانا جاتا ہے۔ یہ ہی بابا چشتی ہیں۔
بابا جی اے چشتی جیسی شخصیت پر قلم اُٹھانا خاکسار کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ایسی ہستی پر لکھنا جس نے پاکستانی فلمی موسیقی اور فلمی صنعت کو خونِ جگر سے پالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا جی کی سچی موسیقی نے ایسا جادو کیا کہ محض دو کامیاب ترین فلموں کی کمائی سے لاہور میں دو نئے فلم اسٹوڈیو بن گئے۔ ایور نیو پکچرز کی فلم ”دُلّا بھٹی“ جمعہ 6 جنوری 1956 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس سُپر ہِٹ فلم کے پیسوں سے ایور نیو اسٹوڈیو قائم کیا گیا۔ پھر جمعہ 22 فروری 1957 کو ملِک ٹاکیز کی فلم ”یکے والی“ ریلیز کی گئی۔ یہ لاہور کے ’کیپیٹل‘ سینما میں 50 ہفتے مسلسل چلی۔ اِس میں اداکارہ مسرت نذیر نے ٹائٹل رول ادا کیا تھا۔ مذکورہ فلم کے بے مثال منافع سے فلمساز باری ملِک نے اپنے وقت کے سب سے بڑے فلم اسٹوڈ یو کے لئے ملتان روڈ پر زمین خرید لی۔ روایت کی جاتی ہے کہ اس فلم کو بنانے میں کل ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے جب کہ فلم سے 40 لاکھ روپے کمائے گئے۔
بابا جی کے دو شاگرد وں نے فلمی صنعت میں کامیاب موسیقار بن کر بڑا نام کمایا۔ ایک پاکستان کے عبد الرحمن المعروف رحمان ورما ( 1927۔ 2007 ) اور دوسرے بھارت کے محمد ظہور خیام ہاشمی المعروف خیام۔ ابتدا میں ان دونوں نے ”شرما جی ورما جی“ کی جوڑی کے نام سے کام کیا۔ انہوں نے بھارتی فلم ”ہیر رانجھا“ ( 1948 ) کی موسیقی ’شرما جی ورما جی‘ کے نام سے مرتب کی۔ پھر اس کے بعد موسیقار رحمن ورما پاکستان ہجرت کر گئے جب کہ خیام بھارت میں رہے اور اپنا اور اپنے اُستاد کا خوب نام کیا۔
موسیقار خیام نے بھارتی فلموں میں پانچ سال تک ”شرما جی“ کے نام سے کام کیا اس کے بعد اپنا نام خیام رکھ لیا۔ یہ دونوں حضرات اپنے انٹرویو اور محفلوں میں فخر سے اپنے آپ کو بابا جی کے شاگرد ہونے کا ذکر اور بابا جی کو خراجِ تحسین پیش کرتے رہے۔ خیام صاحب ( 1927۔ 2019 ) اپنی فلمی موسیقی کے علاوہ انسانیت کی خدمت کے حوالے سے بھی بڑا کام کر گئے۔ انہوں نے اپنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر زندگی بھر کی کمائی، بھارتی 10 کروڑ روپیہ، فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دیا۔
بابا چشتی، موسیقار کے ساتھ فلمی شاعر بھی رہے۔ انہوں نے 12 فلموں کے لئے گیت لکھے۔ اس لئے انہیں گیت نگار بھی مانا جاتا ہے۔
غلام احمدچشتی المعروف بابا جی اے چشتی 1901 میں ’گوناچو ر‘ ، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ بابا کے والد امامِ مسجد تھے۔ کچھ بڑے ہوئے تو نعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔ عام آدمی بھی سُر، تال اور سریلی آواز پہچانتا اور پسند کرتا ہے۔ قدرت نے یہ تینوں چیزیں بابا جی کو عطا کر رکھی تھیں۔ انہیں بچپن ہی سے نعت خوانی اور میلاد کے موقعوں پر بلوایا جاتا۔ یوں ابتدا ہی سے بابا جی پبلک ڈیمانڈ تھے۔
دسویں میں تھے کی والد فوت ہوگئے۔ اس کے چند ہی ماہ بعد والدہ بھی انتقال کر گئیں۔ 17 سال کی عمر ہو گی جب محکمہ آب پاشی میں ملازم ہو گئے۔ نعتوں میں بہتری پیدا کرنے کے لئے یہ موسیقی کی جانب مائل ہوئے اور موسیقار سیتا رام کی شاگردی اختیار کی۔ پھر وقت بابا جی کو اُستاد عاشق علی خان کے پاس لاہور لے آیا۔ یہاں بابا جی معاون کے طور پر اپنے اُستاد کے ساتھ آغا حشر کاشمیری کے اسٹیج ڈراموں کی موسیقی دینے والی ٹیم میں شامل ہو گئے۔
بابا جی ذہین اور بہت با صلاحیت تھے۔ رفتہ رفتہ تھیٹر / اسٹیج کی موسیقی پر دسترس حاصل ہو گئی۔ آغا حشر بابا چشتی کو 50 روپے ماہانہ تنخواہ دیتے تھے۔ یہ اُس زمانے میں ایک معقول رقم تھی۔ آغا صاحب کے انتقال کے بعد بابا جی ایک ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہو گئے اور اُستاد جھنڈے خان کی معاونت میں خود دھنیں بنانے لگے۔ خرابی صحت کی بن پر جب جھنڈے کان کمپنی کی ملازمت سے الگ ہوئے تو بابا نے اُن کی گدی سنبھال لی۔ یہ ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔ اُس دور کے تمام مشہور گانے والیاں / والوں کی آوازوں میں گیت ریکارڈ کیے۔ جیسے : میڈم نورجہاں کی پھوپھی عنایتی، خورشید بیگم وغیرہ۔ بابا جی ایک دِن میں سات سے آٹھ گیت ریکارڈ کرواتے تھے۔ انہوں نے اپنے وقت کے نامور موسیقاروں کی موجودگی میں کام کیا اور اپنی جگہ بنائی۔
انہوں نے یہاں جَدَن بائی ( بھارتی اداکارہ نرگس کی والدہ اور سنجے دت کی نانی) اور امیر بائی کرناٹکی کو بھی ریکارڈ کیا۔ جَدَن بائی خود بھی موسیقار تھیں۔
یہ بابا چشتی ہی تھے جو نورجہاں کو قصور سے لاہور لے کر آئے۔ بات سے بات اور کام سے کام نکلتا گیا۔ کچھ عرصے بعد فلمی ہدایتکار شوری نے لاہور میں پنجابی زبان میں بننے والی فلم ” سوہنی مہینوال“ کا اعلان کرتے ہوئے بابا چشتی کو موسیقار منتخب کیا۔ گویا اُس وقت کلکتہ اور بمبئی کے ساتھ لاہور بھی فلمی مرکز تھا۔ یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ مذکورہ فلم کا پہلا گیت، گیت نگاراُستاد ہمدمؔ نے لکھا۔ ان کے شاگرد اُستاد دامنؔ نے بھی مشہور ہو کر اپنے اُستاد کا نام خوب روشن کیا۔ اس فلم کے فوراً بعد کلکتہ کی فلمی صنعت سے بابا جی کا بلاوا آ گیا اور یہ کلکتہ آ گئے جہاں بنگالی فلموں کے ساتھ
اُ ردو اور پنجابی فلمیں بھی بنتی تھیں۔ یہاں بابا جی کی موسیقی میں ”چمبے دی کلی“ اور ”پردیسی ڈھولا“ خاصی مشہور ہوئیں۔ انہوں نے اُردو فلموں میں موسیقی کے ساتھ ساتھ چند گیت بھی لکھے۔ جیسے : فلم ”البیلی“، ”ضدی“، ”نئی بھابھی“، ” دو باتیں“، ”جھوٹی قسمیں“ وغیرہ۔
بابا جی نے یہاں ایک سُپر ہِٹ فلم ”شکریہ“ کی دھنیں بنائیں اور گیت بھی لکھے۔ ا ن گیتوں نے پورے ملک کے گلی کوچوں میں دھومیں مچا دیں۔ جیسے : ’ہماری گلی آنا اچھا جی، ہمیں نہ بھلانا اچھا جی‘ ۔ بابا جی کے لکھے ہوئے ا س دوگانے کو نسیم اختر اور امر نے ریکارڈ کروایا تھا۔
فلم ”دو باتیں“ اور ”جھوٹی قسمیں“ ( 1947 ) بابا جی کی بھارت میں آخری فلمیں ہیں۔ پھر وہ پاکستان ہجرت کر گئے۔
لاہور میں اُن کی ملاقات اداکار اور فلمساز نذیر اور ہدایتکار لقمان سے ہوئی۔ بابا جی کی پہلی پاکستانی فلم ”شاہدہ“ ( 1949 ) ہے۔ ہدایت کار لقمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بننے والی یہ پہلی فلم ہے، کیوں کہ فلم ”تیری یاد“ قیامِ پاکستان سے کچھ پہلے سے بن رہی تھی۔ لقمان صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستانی فلمی صنعت کا پہلا مکالمہ جو ریکارڈ ہوا وہ اُن کی اسی فلم کا ہے۔ وہ مکالمہ یہ ہے : ”اللہ! میری عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔
”۔ یہ مکالمہ حکیم احمد شجاع نے لکھا تھا۔ حکیم صاحب فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کے والد تھے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ مذکورہ فلم نے دہلی اور لکھنو دونوں جگہ سلور جوبلی کی جبکہ پاکستان میں منافع کے لحاظ سے یہ اوسط رہی۔ نامور اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان کی یہ دوسری اور آخری پاکستانی فلم تھی۔ پہلی فلم“ تیری یاد ”تھی۔ بات بابا جی کی ہو رہی تھی۔ فلم“ شاہدہ ”کے لئے کچھ گیت موسیقار ماسٹر غلام حیدر نے ریکارڈ کروائے تھے کہ اُن کا بھارت جانا ہو گیا۔ باقی کا کام بابا جی نے کیا۔ اِس کے بعد انہوں نے ہدایتکار نذیر کی فلم“ سچائی ”کے تمام گیتوں کی دھنیں بنائیں۔
جس فلم نے بابا جی اے چشتی کو آسمانِ شہرت پر پہنچایا وہ لاہور میں بننے والی انیس پکچرز کی سُپر ہِٹ ”پھیرے“ ہے۔ تذکروں کے مطابق یہ فلم 1949 کی عید الفطر پر ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی خا ص بات یہ ہے کہ بابا جی نے 6 گیت ایک ہی دن میں لکھے، اُن کی دھنیں بنائیں، گانے والوں کو یاد کروایا، میوزشنوں کو ریہر سل کروا کر چھ کے چھ گیت اُسی روز ریکارڈ بھی کروا دیے۔ جو ایک ریکارڈ ہے۔ یہ چالو کام نہیں تھا۔ یہ گیت سُپر ہٹ ہوئے۔ تب ہی تو یہ فلم خوب چلی۔ اِن کے علاوہ کچھ گیت بابا عالم سیاہ پوشؔ نے بھی لکھے۔ تذکروں کے مطابق مذکورہ فلم پاکستان کی پہلی سلور جوبلی فلم ہے۔ اِس فلم کے گیت شہر شہر اور گاؤں گاؤں مقبول ہوئے۔ جیسے :
’ سوں رب دی اے تیرے نال پیار ہو گیا، وے چناں سچی مچی وے چناں سچی مچی‘ گیت بابا چشتی، آواز منور سلطانہ، ’وے اکھیاں لائی نہ، تے فیر پچھتائیں نہ‘ گیت بابا چشتی، آوازیں منور سلطانہ اور عنایت حسین بھٹی، ’نی کی کیتا تقدیرے، کیوں رو ڑ دتے دو ہیرے‘ گیت بابا چشتی، آواز منور سلطانہ۔ رضا میر فلم کے کیمرہ مین تھے جنہوں نے آگے چل کر عکاسی اور ہدایتکاری میں خوب نام کمایا۔ عنایت حسین بھٹی صاحب کو روشناس کرانے والے بھی یہ بابا جی ہی ہیں۔ ”پھیرے“ نے بابا جی کے جو دن پھیرے تو وہ پھر آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس فلم کے بعد زمانے نے یہ دیکھا کہ بابا جی جس پنجابی فلم کے موسیقار ہوتے اُس کے گیت مقبول ہو کر فلم کو مقبول کروا دیتے۔ لیکن بابا چشتی پر پنجابی فلموں کے موسیقار کی چھاپ لگ گئی۔ جیسے : ”دلا بھٹی“، ”ڈاچی“، ”گُڈی گُڈا“،
” پتن“، ”پینگاں“، ”موج میلا ’‘ ، “ زلفاں ”، “ جند جان ”، “ بھریا میلا ”، “ چَن مکھناں ”وغیرہ چند مثالیں ہیں۔
بابا چشتی نے اُردو فلمیں بھی کیں : عید الفطر منگل 24 مئی 1955 کو فلم ”نوکر“ پیش کی گئی۔ یہ پاکستان کی دوسری گولڈن جوبلی فلم ہے۔ اس فلم میں قتیل ؔشفائی کی لوری کو کوثر پروین نے اس قدر ڈوب کر ریکارڈ کروایا کہ لگتا ہے کوئی ماں، آپ کے سامنے اپنے بچے کو لوری سنا رہی ہے۔ ’راج دُلارے توہے دل میں بساؤں توہے گیت سناؤں، او میری انکھیوں کے تارے‘ ۔
جمعہ 17 فروری 1956 کو ریلیز ہونے والی ایور نیو پکچرز کی ”لختِ جِگر“ کے بعض گیت اور ایک ’لوری‘ آج تک مقبول ہیں اور ریڈیو پاکستان اور ایف ایم اسٹیشنوں سے اکثر سنوائے جاتے ہیں : ’چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا تاروں کی نگری سے آ جا‘ لوری کے لکھنے والے ناظم پانی پتی ہیں اور آواز نورجہاں کی تھی۔ ’وہ خواب سہانہ ٹوٹ گیا امید گئی ارمان گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت سیف الدین سیفؔ، آواز نورجہاں، ’آ حال دیکھ لے میرا کہ دل میں پیار بسا کر تیرا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت حزیں قادری، آواز نورجہاں۔
بابا جی اور 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ:
موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان جب اپریل 1992 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو جتوا کر ورلڈ کپ لائے تو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں بابا جی نے خصوصی طور پر ایک گیت لکھا اور دھن بنائی۔ اس ولولہ انگیز گیت کو پاکستان ٹیلی وژ ن سے براہِ راست پیش کیا گیا۔ اس یادگار موقع پر نامور کمپیئر دلدار پرویز بھٹی اور اداکار توقیر ناصرنے کمپیئرنگ کی۔ نغمے کے دوران لاہور فلائنگ کلب نے جہاز سے گُل پاشی کی۔ گیت کے بول تھے : ’دیکھو دیکھو لے کے کپ عالمی، عمران آ گیا عمران آ گیا‘ ۔
ایک مرتبہ بابا جی طارق عزیز کے پروگرام ’نیلام گھر‘ میں آئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ سنا ہے آپ اخبار کی سُرخی کی بھی دھن بنا لیتے ہیں۔ جواباً اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ واقعی سیکنڈوں میں اخبار کی سُرخی کی دھن بنا ڈالی۔ کیا کمال کے لوگ تھے!
یہ خاکسار گاہے بگاہے اپنی تحریروں میں اس بات کا ذکر کرتا رہتا ہے کہ میں خوش قسمت ہوں کہ کچھ عرصہ باقاعدگی سے علی سفیان آفاقی صاحب سے نشست رہی۔ میں نے سوال جواب کی صورت فلمی شخصیات پر بہت معلومات حاصل کیں۔ موسیقی سے چوں کہ مجھے بہت لگاؤ ہے لہٰذا موسیقاروں کے بارے میں اِن سے قیمتی معلومت ملیں۔ بابا چشتی سے متعلق آفاقیؔ صاحب نے مجھے بتایا: ”فلم“ پھیرے ”اور“ پتن ”کے کئی گانے بابا چشتی ایک دن میں خود لکھتے، طرزیں بناتے اور پھر گلوکار کو مشق کرا کے صدا بند کرواتے۔
ایسا کام دنیا کے کسی موسیقار نے نہیں کیا ہو گا! بابا چستی کا نام تو گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہونا چاہیے تھا ”۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔ بابا جی تو اپنی ذات میں ملنگ تھے لیکن فلمی دنیا کے کرتے دھرتوں کو بھلا اس بات کا کیا شعور اور احساس کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں! آفاقیؔ صاحب اکثر فلم“ لختِ جگر ”میں بابا چشتی کے گانوں کا ذکر کرتے کہ اِن کی تو بھارت میں بھی تعریفیں ہو تی ہیں۔
میڈم نورجہاں کے لئے بابا جی کی کیا قدر و منزلت تھی اس پر آفاقی صاحب نے مجھے بتایا: ”دیکھنے میں آتا کہ میڈم دوسروں کو کوئی اتنا زیادہ خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ البتہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بابا چشتی کا حد درجے احترام کرتیں۔ کیوں کہ ان کا اولین فلمی گیت بابا نے ہی فلم“ سوہنی مہینوال ”کے لئے ریکارڈ کرایا تھا۔ تب میڈم کی عمر آٹھ نو سال ہو گی۔
بابا جی اے چشتی کو پاکستانی فلمی موسیقی میں گراں قدر خدمات انجام دینے پر صدرِ پاکستان نے 1987 میں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا۔
پاکستانی فلمی موسیقی میں کئی نئی آوزوں کے لانے کا سہر ا بابا جی کو جاتا ہے۔ جیسے 1935 میں نورجہاں کو اسٹیج پر لانا جب وہ صرف 9 سال کی تھیں۔ 1951 میں گلوکارہ زبیدہ خانم سے فلم ”بلو“ میں گیت ریکارڈ کروائے۔ 1955 میں گلوکار سلیم رضا کو فلم
” نوکر“ میں موقع دیا۔ 1956 میں گلوکارہ نسیم بیگم کو فلم ”گڈی گڈا“ میں موقع دیا۔ 1956 میں نذیر بیگم کو فلم
” مِس 56“ میں اور مالا کو 1961 میں فلم ”آبرو“ میں مواقع دیے۔ 1963 میں مسعود رانا کو پنجابی فلم ”رشتہ“ میں ریکارڈ کیا۔ پرویز مہدی کو 1973 میں فلم ”چَن تارہ“ میں موقع دیا۔ آگے چل کر خود پرویز مہدی کو بھی ستارہ امتیاز حاصل ہوا۔
بابا جی نے بلا شبہ ہزاروں گیت ریکارڈ کروائے۔ ان میں زیادہ تر عوام کے دلوں میں رچ بس گئے۔ چند کا ذکر کرنا برمحل ہو گا:
’ سانوں وی لے چل نال وے باؤ سوہنی گڈی والیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ گیت حزیں قادری، آواز نسیم بیگم، فلم ’ماں پُتر‘ ( 1970 ) ، ’تک چن پیا جاندا اے، ویکھ ویکھ میرے چن نوں پیا مکھڑا چھپاؤندا اے‘ آوازیں نورجہاں اور پرویز مہدی، فلم ’چن تارہ‘ ( 1973 ) ،
’ دو دل اک دوجے کولوں دور ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ، آواز رونا لیلیٰ، فلم ’زیلدار‘ ( 1972 ) ، ’پاگل نے او جیڑھے سچا پیار کسے نال کردے نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ آواز نورجہاں، فلم ’یارد یس پنجاب دے‘ ( 1971 ) ، ’ٹانگہ لھور دا ہووے تے پاہویں جھنگ دا، ٹانگے والا خیر منگدا‘ آواز مسعود رانا، فلم ’ڈاچی‘ ( 1964 ) ۔
بابا چشتی نے فلمی دنیا میں 50 سالوں میں 15 بھارتی اور تقریباً ڈھائی سو پاکستانی فلموں میں موسیقی ترتیب دی۔ انہوں نے تمام عمر ”تعلقاتِ عامہ“ سے کام نہیں لیا۔ کبھی کسی فلمی گروہ بندی کا حصہ نہیں بنے۔ انہوں نے وقت کو دیکھتے ہوئے موسیقی کے انداز کو بھی بہت بدلا۔ خاکسار کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ فلمسازوں نے اُن سے کام لینا بتدریج چھوڑ دیا۔ حالاں کہ آخر زمانے تک وہ ذہنی طور پر چاق و چوبند تھے۔ ہاں! البتہ اپنی ذاتی تشہیر انہوں نے کبھی نہیں کی۔ 89 سال کی عمر پا کر 25 دسمبر 1994 کوجہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ بابا جی خوش نصیب ہستی ہیں کیوں کہ جب بھی اچھی اور میٹھی موسیقی سُنی جائے گی اُن میں ایک بڑا حصہ بابا جی کے گیتوں کا ہو گا اور سننے والے اپنی سماعت کے اُن فرحت انگیز لمحات کے لئے ہمیشہ بابا جی کے مشکور رہیں گے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔