وہ کون سی بات ہے جس پر عمران خان نے یو ٹرن نہ لیا ہو؟ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری بھی جھوٹ کی شاہراہ پر میرے کپتان کا ایک اور یوٹرن ہے۔ جس میر شکیل الرحمان کو انہوں نے آج گرفتار کیا ہے وہ بھول گئے ہیں کہ کبھی اسی اسی میر شکیل کے ساتھ کبھی عمران خان میراتھان کیا کرتا تھا، بڑے بڑے رفاہی پروگرام کیا کرتا تھا اور اسی کے ادارے کی شعور کے فروغ میں کی گئی کوششوں کا اعتراف کیا کرتا تھا۔
سچی بات ہے کہ جب میں نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری کی خبر سنی تو میرے ذہن میں عمران خان کے کنٹینر پر کھڑے یہ الفاظ گونجنے لگے ”میر شکیل الرحمان میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں“ اور سچی بات ہے کہ ان الفاظ نے میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اور پورے کیس کو گہنا دیا ہے۔ سونے پر سہاگا یہ ملک بھر میں جیو کو بندش اور اسے آخری نمبروں پر دھکیلنے کے عمل نے میرے جیسے قانون پر یقین کرنے والوں کے ذہنوں میں بھی یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ کیس تو میر شکیل الرحمان پر تھا جو پنجرے میں بند ہو چکا ہے جیو کو کیوں بند کیا جارہا ہے؟
میرا کپتان اور کوئی وعدہ پورا کرے نہ کرے انتقام کا وعدہ ضرور پورا کرتا ہے۔ میرے کپتان نے کہا تھا احسن اقبال میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں اور اسے جیل پہنچا دیا، میرے کپتان نے کہا تھا کہ خواجہ سعد رفیق میرا تمہارا حشر کردوں گا اور آج خواجہ سعد رفیق بھی جیل میں ہے اور میرے کپتان نے میر شکیل الرحمان کو ایسا کہا تھا جب ان کا چینل ایک منتخب حکومت کے خلاف دیے گئے عمران نیازی کے دھرنے کی حقیقت واضح کررہاتھا اورآج موقع ملتے ہی میرے کپتان نے یہ وعدہ بھی ضرور پورا کردیا لیکن میرے کپتان کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ کچھ گرفتاریاں گلے کی پھانس بن جاتی ہیں۔ عرفان صدیقی کی طرح میر شکیل الرحمان کی گرفتاری بھی اس ریاست کے جاری انتقامی سفر کو مزید ننگا کر گئی۔
نیب کا قانون یہ کہتا ہے کہ سب سے پہلے الزام کی ویریفکیشن کی جائے اوریہ طے کیا جائے کہ آیا یہ الزام درست ہے یا نہیں، اس کے بعد انکوائری کی منظوری دی جاتی ہے، پھر حقائق جمع کیے جاتے ہیں اور حقائق درست ہونے پر انویسٹی گیشن کی منظوری دی جاتی ہے، پھر شواہد جمع کر کے ریفرنس دائر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ملزم کو دو صورتوں میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ اول:اگر اس ملزم کی پوزیشن ایسی ہو کہ وہ اپنے خلاف ثبوت مٹا سکتا ہو۔ دوم: اس کے ملک سے بھاگنے کا خدشہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا میر شکیل الرحمان کیس اورگرفتاری میں ان لوازمات کا خیال رکھا گیا؟ اگر ہاں تو انہیں گرفتار کیوں کیا گیا ہے اور اگر نہیں تو کیوں؟ اس کے علاوہ یہ سوالات بھی ڈھول کا پول خوب کھول رہے ہیں کہ کیا میر شکیل الرحمان کبھی بھی پبلک آفس ہولڈر رہے ہیں؟ کیا یہ کیس نیب کے دائرہ کار میں آتا ہے؟ ان کے بھاگنے کا تو خدشہ ہی نہیں تھا کیونکہ جب انہیں نیب کا ریفرنس ملا تو ملک سے باہر تھے لیکن وہ واپس آئے، جب بھی نیب نے بلایا وہ پیش ہوئے اورثبوت بھی مہیا کیے لیکن پھر بھی گرفتاری۔
شکایات تو پرویز خٹک اورصوبائی وزیر مشتاق غنی کے خلاف بھی ہیں بلکہ انکوائری کی منظوری بھی دی جاچکی ہے، نامزد تو نندی پور کیس میں بابر اعوان بھی ہیں، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خلاف نیب خود ہی انکوائری کی منظوری دے چکا ہے، نیب ہی نے موجودہ چیئرمین پیمرا کے خلاف بھی ایک ریفرنس درج کررکھا ہے لیکن یہ لوگ نہ صرف آزاد ہیں بلکہ اپنے عہدوں پر بھی قائم ہیں۔ اگر نیب واقعی احتساب ہی کررہا ہے تو مختلف کیسوں میں یہ دوہرا معیار کیوں ہے؟
عمران نیازی صاحب بات تو ریاست مدینہ کی کرتے ہیں لیکن ان کا کردار اس بات کی نفی کرتا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ کے دوسرے خلیفہ فاروق اعظم راتوں کو مدینہ کی گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تا کہ حالاے سے آگاہی ہو۔ عمران نیازی کوجیو اور ڈان جیسے میڈیا کا شکرگزار ہونا چاہیے جن کی وجہ سے انہیں راتوں کو گشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں پرائم منسٹر ہاؤس جسے انہوں نے یونیورسٹی بنانا تھا، کے ایک کمرے میں بیٹھ کر انہیں پورے ملک کے حالات سے آگاہی ہو سکتی ہے۔ لیکن افسوس! وہ شکریہ اداکرنے کی بجائے ان کی آوازوں کو ہی بند کردینا چاہتے ہیں لیکن انہیں معمول نہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے بلی چلی نہیں جاتی۔
حقیقت یہی ہے کہ یہ احتساب نہیں بلکہ انتقام ہے اور آزاد میڈیا کو دبانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اگر عمران خان کو یاد نہ ہو انہیں اپنے مرشد پرویز مشرف سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے بھی جیو اور ڈان کو بند کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کوشش میں وہ خود بند ہو گئے۔ ملک پاکستان میں نوائے وقت، ڈان اور جنگ ایسے گروپ تھے جن کی عمر خود پاکستان کی عمر سے زیادہ ہے۔ پاکستان بعد میں وجود میں آیا جبکہ یہ ادارے پہلے وجود میں آئے اور انہوں نے کسی بھی آمر کے سامنے ہمیشہ جھکنے سے بھی انکار کیا۔
مجید نظامی مرحوم کی وفات کے بعد نوائے وقت کا جو حال ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈان اور جیو کو جھکانے کی بہت کوشش کی گئی۔ کبھی اشتہار بند کیے گئے، کبھی حملے کروائے گئے، کبھی کاپیاں جلوا دی گئیں، کبھی کیبلز سے غائب کر دیا گیا، کبھی توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے اورکبھی غداری کے فتوے لیکن ان اداروں کے مالکان نے ہر طرح کی قربانی دے کر ظالم حکمرانوں کے اعلائے کلمہ حق کا سب سے افضل جہا د کیا بلکہ جب نیب نے یہ ریفرنس دائر کیا تو جنگ اور جیو نے خود اپنے مالک کے خلاف اس خبر کو نشر کیا جبکہ اس مقابلے میں اے آر وائی نے کبھی اس کیس کا تذکرہ نہیں کیا جو ان کے مالک کے خلاف سونے کی سمگلنگ کے ضمن میں درج ہے اور جس کی فائلوں پر پڑی گرد کو بھی صاف کرنے کی کسی کی جرأت نہیں ہے۔
جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو آزاد میڈیا ان کے نزدیک کسی بھی ملک کے لیے لازمی تھا لیکن جب سے وہ وزیراعظم بنے ہیں وہ اکثراوقات اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کو بھی سعودی عرب اور چین کے میڈیا کی طرح حاکم کے گھر کی لونڈی ہونا چاہیے اور میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن شاید خان صاحب بھول گئے ہیں کہ ہر کوئی ”حاجی“ صاحب کی طرح جھکنے والا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ میر شکیل الرحمان کی طرح بھی ہوتے ہیں۔ میر شکیل الرحمان اس شخص کی اولاد ہے جس نے برٹش راج کے آگے جھکنا گوارا نہیں کیا۔