یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب میں جیل میں منشیات کے عادی افراد کی تھریپسٹ کی حیثیت سے ملازمت کر رہی تھی۔ ابھی تین بجنے یعنی نوکری کا وقت ختم ہونے میں پورا ایک گھنٹہ باقی تھا کہ جوزف آ گیا۔ میں پانچ فٹ قد کی مختصر سی عورت اپنی کرسی پہ بیٹھی ہوئی اور وہ چھ فٹ چار انچ کا لمبا چوڑا سفید نژاد یورپین مرد اپنے پورے قد سے میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ ”پلیز بیٹھ جائیں” میں نے کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوے اپنے اور اس کے درمیان دوری کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ بیٹھ گیا۔ اب وہ میرے عین مقابل تھا۔ مسکراتا ہوا۔ مجھے اس کے غیر دلکش چہرے پہ مسکان ہی اچھی لگی۔ اس میں نیکی، محبت اور سچائی سی تھی۔ لیکن یہ بھی بات سچی تھی کہ وہ ایک جیل کے احاطے میں تھا اور رہائی سے پہلے منشیات کی تھرپی کے نو ماہ کے علاج سے گزر رہا تھا۔ گو اس کے جرائم کی فہرست کوئی لمبی چوڑی نہ تھی بس کوکین اور ایمفیٹ ایمین کا استعمال اور غیر قانونی تیاری اور وہ بھی خود اپنے استعمال کے لیے، بیچنے کے لیے نہیں۔ منشیات کے عادی افراد کی طرح وہ انسانیت سوز جرائم، زنا، چوری چکاری وغیرہ میں بھی ملوث نہ تھا۔ شوہر اور دو بیٹیوں کا باپ۔ کم ازکم اچٹتی سی اس کی ہسٹری پڑھنے سے مجھے یہی اندازہ ہوا۔
ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ بات شروع کروں کہ وہ اپنی پھنسی ہوئی سی آواز میں بول پڑا “یہ میرا آخری ٹریٹمنٹ سینٹر ثابت ہو گا اس جیل کے اندر۔ بس اگر تم بھی میری کچھ مدد کرو” پچاس سال کی عمر میں بھی اس کے لہجہ میں پانچ برس کے بچے کیسی التجا تھی۔ میں نے اس کی آنکھوں میں سچائی دیکھی اور کہا۔ “اگر خود سے سچائی کا وعدہ کرو تو بات بنے گی ورنہ تو تم جانتے ہی ہو۔۔۔“ اس نے برجستہ کہا۔ ”ہاں اب تک ایسا ہی ہوا میں نے کبھی کسی تھرپسٹ سے اپنے دل کی بات نہیں بتائی اور گروپ تھرپی میں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا اپنی زندگی کے متعلق کچھ کہنے کا۔ مجھے بہت بے عزتی محسوس ہوتی تھی ماضی کی یادوں کوکریدنے سے” اس نے سچائی سے کہا۔ جواباَ میں نے کہا“دکھ تو ہوتا ہے لیکن کبھی زخموں کی اندمالی کے لیے بیتے لمحوں کو ماضی کی قبر سے نکالنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ “
پھر اسکے تجزیاتی فارم کو بھرتے ہوے میں نے اس کی زندگی کی ہر تفصیل پوچھی۔ تمام پہلوؤں کا احاطہ۔ اس دن اور بعد کے ہر سیشنز اور پھر گروپ تھرپی میں اس نے ہر دن اپنے اس وعدہ کا پاس رکھا جو اس نے اپنے آپ سے کیا تھا یعنی سچ کے اظہار کا۔
ان تمام سیشنز کے دوران مجھے پتا چلا کہ اس کا بچپن بہت تکلیف دہ تھا۔ اس کی وجہ اس کی ماں کا ظالمانہ رویہ تھا جو اس کو بغیر کسی خاص وجہ کے بہت مارتی تھی اور وہ چھوٹی سی عمر سے بری طرح پٹتا رہا ہے۔ ”وہ ظالم کتیا۔ ۔ ۔ میں جتنی بھی کوشش کر لوں اس کو خوش رکھنے کی سب بیکار۔ ۔ حتی کہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں اس کے گھر سے نکل گیا۔ ایک کم عمر لڑکا کس طرح اپنی زندگی کو اپنے بل بوتے گزار سکتا ہے۔ مگر میں نے محنت کی، شدید محنت۔ پہلے تو دن بھر کام کرکے کسی بھی کونے کھدر ے مثلا کسی پرانے خالی گھرکے اندر تو پھر کسی پارک کے بینچ پہ تو کبھی کسی کوڑے خانے کے پیچھے سو جایا کرتا۔ مگر پھر خدا کو مجھ پہ رحم آگیا تو میں نے جس شخص کے لیے مزدوری کا کام شروع کیا اس نے مجھے کم کرایہ پہ ایک کھولی میں رہنے کی جگہ دے دی اور یوں مجھے ایک ٹھکانہ سا مل گیا۔ میں پورے پورے دن کام کرکے اپنی زندگی کا خرچہ پورا کرتا۔ پڑھائی بھی چھٹ گئی۔ یہ بات عجیب ہے کہ میں نے کبھی چوری چکاری نہ کی۔ کبھی کسی کو جان بوجھ کر دکھ نہ دیا۔ اتنے برے حالات نے مجھے ایک مکمل منفی انسان میں نہیں بدلا۔ لیکن میری طبیعت کی انگزائٹی اور ڈیپریشن نے میرا ساتھ منشیات سے ضرور جوڑ دیا۔ گو ابتداء میں میں مختلف ڈرگز(drugs) کرتا رہا لیکن بعد میں بسکوکین سے میرا لمبا بلکہ ہمیشہ کا سمبندھ ہو گیا۔ اس کے استعمال کے بعد میں اپنے دکھ اور تنہائی کو اس طرح بھول جاتا جیسے کوئی اپنی محبوبہ کے سینے سے لگنے کے بعد خود فراموشی کے عالم میں ہو۔ ماں کا سینہ میں اس لیے نہیں کہوں گا کہ میرا بچپن تو اس ظالم کتیا نے چھین لیا تھا۔ میرا باپ بھی مجھے اس کے ظلم سے نہیں بچا سکتا تھا۔ میری علاوہ تین بہنیں تھیں۔ دو چھوٹی اور ایک بڑی۔ جو اس کی سختیوں کا نشانہ تو بنتیں مگر ان کی سختیوں کی شدت میں کمی ہوتی تھی۔ خیر وہ بھی اچھا ہوا ورنہ وہ کہاں جاتیں۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت تھی لہٰذا میں نے کسی نہ کسی طرح ان سے رشتہ رکھا۔ بلکہ ایک نے تو میری دو بچیوں کو پالا بھی ہے۔ ”میں نے حیرانی سے پوچھا “اپنی اولادوں کو کسی کو دینے کی نوبت کیوں آئی؟” اس نے کہا “جب وہ پیدا ہوئیں تو میں نے سوچا کہیں میں بھی ان بچیوں کے لیے جلاد اور ان کے لیے قابل نفرت باپ نہ بن جاؤں۔ شاید میں ان کو پیار نہ دے سکوں۔ مجھے اپنی سختی اور جلادی کا اتنا یقین تھا کہ میں نے اپنی بیوی کو بھی اس adoption پہ راضی کر لیا۔
اب سوچتا ہوں تو مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کے ساتھ کتنی زیادتی کی۔ مگر مجھے کسی ماں کے پیار کی شدت کا اندازہ بھی کب تھا؟۔ “
”اور کیا تمہاری بچیاں تمھارے اس فیصلہ سے تم سے خوش ہیں؟“ میں نے چھبتا ہوا سوال کیا۔ جو اس پر گویا تیر کی طرح لگا۔ ”نہیں وہ مجھ سے ناراض ہیں۔ کبھی بات نہیں کرتیں“۔ مجھے لگا کہ جوزف اس وقت بے بسی کی گہری کھائی میں ہے۔ اور بہت دُکھی۔
المیہ یہ بھی تھا کہ اس کی ماں بلکہ باپ کو بھی مرے کئی سال گزر چکے تھے لیکن اس کے دل میں اپنی ماں کے لیے نفرت کی آگ روز اوّل کہ طرح بھڑک رہی تھی۔ وہ اس کے لیے صرف کتیا کی اصطلاح استعمال کر رہا تھا۔ اس کی زیادتیوں کے خلاف برسوں کی نفرت اس کے وجود میں گہری جڑ پکڑ چکی تھی۔
میرے لیے اس کی تھرپی چیلنج تھی بھی اور نہیں بھی وہ اس طرح کہ اس کی نشہ سے پاک زندگی میں میں ہی نہیں وہ خود بھی سنجیدہ تھا اور اس کے لیے وہ ہرممکن تعاون کا دل سے خواہاں تھا۔ پہلا تعاون تو تھا اس کی ماں کے ماضی اور بچپنے کے متعلق ممکنہ تمام معلومات کا حصول۔ اس معلومات کا مقصد اس کی ماں کی ذہنی کیفیت اور محرومیوں کا پتہ کرنا تھا۔ اکثر جب ہمیں کسی کے پس منظرکا پتہ چلتا ہے تو اسکے رویہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اس مقصد کےلئے جوزف نے اپنے شہر سے دور ریاستوں میں رہنے والی بہنوں اور کچھ رشتہ داروں سے رابطہ کیا۔ ان کی معلومات کے تحت اسے پتہ چلا کہ اس کی ماں شدید کلینکل ڈیپریشن اور انگزائٹی کی مریضہ تھی۔ لیکن جو بات اہم تھی وہ یہ کہ اس کی ماں کو خود اس کے حقیقی والدین نے غالبا اس وقت کی جنگ کی تباہ کاریوں اور غربت کے سبب کچھ ماہ کی عمر میں یتیم خانے میں ڈال دیا تھا۔ اس قسم کے اداروں میں توجہ اور پیار سے محروم بچے لائن سے پڑے ہوتے اور ان کو گلے سے لگا کر پیار کرنے والا نہیں ہوتا۔ کوئی ایسا فرد نہیں جن سے وہ اٹیچ attach ہو کر سکون تلاش کر سکیں۔ جب کی بچوں کی نگہداشت پہ چند کیئر گیور ہوں تو ایسا ہونا عملی طور پہ ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے بچے attachment disorders کا شکار ہوتے ہیں۔ ان میں عدم تحفظ، بے اعتمادی، انگزائٹی اورڈیپریشن کے ساتھ اور بھی کئی غیر صحتمند منفی باتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ زمانے کے تجربات ان کی بالغ زندگی کے رویے پہ بھی حاوی رہتے ہیں۔ اپنی ماں کے متعلق اس محرومی کا جوزف کو پتہ نہ تھا۔
اپنے گروپ تھرپی کے تعلیمی سیشنز میں گروپ نے مختلف قسم کے attachment patters کو سمجھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اہم سماجی سائنسدانوں کی معلومات بالخصوص بچپن کے حوالے سے زیر گفتگو رہے۔ اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ میرے مردانہ جیل میں کام کرنے کی تجربے کے مطابق اکثریت کا بچپن اپنے والدین بالخصوص باپ کے رویہ کی وجہ سے محرومی کا شکار ہوتا ہے۔ (بچپن کی بے توجہی محرومی اور استحصال اور اسکے بعد کے دیرپا اثرات کی اہم تحقیق جسے ACEs (adverse childhood experiences) کہا جاتا ہے اہم نتائج سامنے آئے ہیں۔ یہ موضوع ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے)۔
ہمیں اس بات کی اہمیت کو ماننا پڑے گا کہ تعلیم ایک اہم ہتھیار ہے جس سے ہم بہت اہم جنگیں لڑ سکتے ہیں اپنے اندر اور اپنے باہر کے محاذوں پہ لڑی جانے والی کئی جنگیں۔
میری تھرپی کا ایک حصہ کلاینٹس کا اپنی زندگی کی تاریخ لکھنا ہے جوزف نے دوسرے اور کلائنٹس کی طرح اپنی سوانح عمری بھی گروپ میں سنائی اور گروپ کی رائے کا خیرمقدم بھی کیا۔ اپنی زندگی کا تجربہ سنانا ایک طرح سے اپنا آپ ننگا کرنے کے مترادف سہی مگر جوزف نے اس سے اپنے آپ کو بہت بہتر محسوس کیا۔ اپنے ہوم ورک کے طور پ پہ اس نے اپنی مردہ ماں کوخطوط کا سلسلہ بھی شروع کردیاتھا جو وہ مجھے انفرادی سیشنز میں سناتا تھا۔ شکایتوں سے بھرے خطوط جو وقت کے ساتھ ساتھ نرم ہو رہے تھے۔ ان میں سے کچھ خطوط کو اس نے گروپ میں بھی پڑھا۔ اب اس کی اندر کی جھجھک ختم ہو گئی تھی۔ اس کے رویے نے گروپ کے کئی اور کلاینٹس کو ہمت دی کہ وہ اپنی زندگی کا سچ کہہ سکیں۔ کیونکہ جوزف کا بار بار یہ کہنا کہ میں پہلی بار اتنی سچائی کا اظہار کر رہا ہوں۔ اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہورہا ہے۔ اور کلائنٹس کے لیے مدد گار ثابت ہو رہا تھا۔
باوجود اس کے کہ جوزف نے اپنی ماں کو کتیا کہنا چھوڑ دیا تھا اس کا اپنی ماں کو معاف کرناممکن نہ تھا۔ آخر یہ اس کے بچپن کی محرومیاں اور بے سکونی ہی تو تھی جس کی وجہ سے وہ نشہ میں سہارا ڈھونڈتا تھا۔ وہ ایک صاحب کردار انسان تھا مگر معافی اور در گزری کے لئے درویشی کے جس درجہ پہ ہونا ہوتا ہے وہ ابھی وہاں نہیں تھا۔
اسے البتہ یہ احساس تھا کہ اس کی بیٹیاں اس سے شدید خفا ہیں۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ بیٹیوں سے معافی مانگے بغیر وہ مکمل سکون کی توقع کس طرح کر سکتا ہے۔ لہٰذا اب اپنی ماں کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بیٹیوں کو بھی خطوط لکھنے شروع کر دیے۔ جس میں اس نے انہیں نہ پالنے کی اور دوسروں کو adoption کے لیے دے دینے کی وجوہات بیان کیں۔ وہ ان سے معافی مانگ رہا تھا جو ابھی زندہ اور اسی دنیا میں تھیں اور دوسری طرف اپنی مردہ ماں کو خطوط جس کی قبر کی ہڈیاں بھی گل چکی تھیں۔ یہ ایک زبردست جنگ تھی جو وہ دو محاذ وں پہ لڑ رہا تھا یہ اسکی مشکل اور ذاتی جنگ تھی۔ میں نے اسے کوئی مشورہ نہیں دیا کہ مشورہ تھرپی کا حصہ نہیں۔ البتہ مجھے یہ ضرور پتہ تھا کہ وہ بہت سی گتھیاں سلجھا نے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس عرصے میں گروپ کے بہت سے کلائنٹس ری پلیس ہوئے مگر اس میں جوزف نہیں تھا۔
نو ماہ بعد ادارے کے تحت ہونے والی گریجویشن کی تقریب میں وہ سر اٹھا کر فخر سے اپنا سرٹیفیکیٹ لیے میرے سامنے سے گذر رہا تھا اس کے چہرہ پہ وہی پرانی دلکش مسکان تھی لیکن ایک نئے پیغام کے ساتھ ”مجھے اپنی ماں سے نفرت نہیں۔۔۔