کیا آپ کنول کا پھول بن سکتے ہیں؟

’ہم سب‘ پر وبا کے دنوں میں ماہرِ نفسیات کی ڈائری کا پہلا ورق چھپنے کے بعد مجھے بہت سے خط ’ای میلز اور فیس بک میسیجز موصول ہوئے۔ ان میں سے ایک مختصر پیغام‘ سوال اور جواب یہ تھا۔
سوال : السلام علیکم سر! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ موجودہ صورتِ حال میں ہم اپنے آپ کو کس طرح ذہنی لحاط سے ٹھیک رکھ سکتے ہیں؟
جواب: کنول کے پھول کی طرح رہ کر۔ جو دلدل میں بھی ہوتا ہے اور دلدل سے اوپر بھی اٹھ جاتا ہے۔ میں آپ کے سوال کا تفصیلی جواب اپنے اگلے کالم میں دوں گا۔
جب سے کرونا وائرس کی وبا شروع ہوئی ہے لوگوں میں خوف ’پریشانی اور خاص طور پر اینزائٹی بڑھ گئی ہے۔ غیر معینہ وقت کے لیے غیر یقینی صورتِ حال نے لوگوں کی زندگی میں ایک نفسیاتی تہلکہ مچا دیا ہے۔
اس وبا سے نبرد آزما ہونے کے دو اہم پہلو ہیں۔
ایک پہلو کرونا مریضوں سے سماجی فاصلہ رکھنا اور social distancing ہے تا کہ صحتمند لوگ متاثر نہ ہوں۔ اسی لیے تمام سماجی محفلوں اور کارروائیوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور عوام کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں رہیں۔
دوسرا پہلو عارضی طور پر جذباتی فاصلہ رکھنا اور emotional distancingہے خاص طور پر ان لوگوں کو جو جذباتی طور پر بہت حساس ہیں۔ ایسے لوگ اپنے دوستوں ’رشتہ داروں اور عزیزوں کے دکھ اپنے اندر جذب کرنے لگتے ہیں اور حد سے زیادہ پریشان اور دکھی ہو جاتے ہیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم جس انسان سے محبت کرتے ہیں ہم اس کے اتنا قریب آ جاتے ہیں کہ اس کے دکھ ہمارے دکھ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دوسروں کا خیال رکھنے کے لیے ضروری ہے ہم پہلے اپنا خیال رکھیں۔ اگر ایک ڈاکٹر خود ہی مریض ہو جائے تو اپنے مریضوں کا کیسے خیال رکھے گا۔ اگر ہم اپنا خیال نہیں رکھیں گے اور self care نہیں کریں گے تو جلد یا بدیر ہم دوسروں کا بھی خیال نہیں رکھ سکیں گے۔ بعض لوگ اپنا خیال اس لیے نہیں رکھتے کہ وہ اسے خود غرضی سمجھتے ہیں۔
میری نگاہ میں selfishnessجو خود غرضی ہے اورself careجو خود خیالی ہے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ خود غرضی میں انسان دوسروں کا حق غصب کر کے اپنا خیال رکھتا ہے جبکہ خود خیالی میں انسان اس نیت سے اپنا خیال رکھتا ہے تا کہ اپنا خیال رکھنے کے بعد وہ دوسروں کا بھی خیال رکھ سکے۔ ایک نرس خود خیالی کے بعد ہی اپنے مریض کا خیال رکھ سکتی ہے۔
میں اپنے مریضوں کو یہ بات ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ جب وہ ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں تو ایر ہوسٹس پرواز سے پہلے کچھ مشورے دیتی ہے۔ ان مشوروں میں ایک مشورہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی بحران میں ہوائی جہاز میں ہوا کا دباؤ کم ہو جائے گا تو جہاز کی چھت سے اوکسیجن کے ماسک گریں گے۔ ماؤں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ماسک پہنانے سے پہلے خود ماسک پہنیں۔ ماضی میں بعض ماؤں نے خود ماسک پہننے سے پہلے بچے کو ماسک پہنانے کی کوشش کی تو وہ بے ہوش ہو گئیں۔
جب کسی انسان کی اینزائٹی ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ کئی جسمانی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بعض حد سے زیادہ حساس لوگ پینک اٹیک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب کسی کو panic attackہوتا ہے تو اس کا
سانس تیز ہو جاتا ہے
پسینہ آنے لگتا ہے
ہاتھ کانپنے لگتے ہیں
دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے
اور
سینے میں درد ہونے لگتا ہے۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں انہین ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے وہ ہسپتال جاتے ہیں ڈاکٹر ان کے ٹیسٹ کر کے بتاتے ہیں کہ انہیں ہارٹ اٹیک نہیں پینک اٹیک ہوا ہے اور انہیں lorazepam [ativan] کی ایک گولی دیتے ہیں جسے زبان کے نیچے رکھنے سے ان کی اینزائٹی کم ہو جاتی ہے۔
ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اپنی نفسیاتی حد کو جانیں اور اس کا احترام کریں۔ جیسے ہم ایک حد سے زیادہ جسمانی بوجھ نہیں اٹھا سکتے اسی طرح ہم ایک حد سے زیادہ ذہنی بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ زیادہ اٹھائیں گے تو نفسیاتی بحران کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ حقیقت ان لوگوں کے لیے زیادہ اہم ہے جو عمر رسیدہ ہیں ’بزرگ ہیں‘ جسمانی کمزوری یاکسی ذیابیطس یا ہائی بلیڈ پریشر جیسی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں۔
میری نگا ہ میں چوبیس گھنٹے پریشان کن خبریں سننا اور دیکھنا ہمارے لیے مفید نہیں۔
ہم دن میں دو دفعہ چند منٹوں کے لیے خبریں سن سکتے ہیں۔
ہم باخبر رہنے کے لیے خود خبریں سننے کی بجائے کسی معتبر اور قابلِ اعتماد انسان سے پوچھ سکتے ہیں۔
میں اپنے مریضوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ دوستوں اور عزیزوں سے فون ’ای میل اور وٹس ایپ پر رابطہ قائم رکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔
چونکہ اب چند ہفتوں کے لیے لوگوں کے پاس فارغ وقت زیادہ ہوگا تو ہم وہ کام مکمل کرسکتے ہیں جو کافی عرصے سے نامکمل رہ گئے تھے۔ دلچسپ کتاب پڑھنا۔ پسندیدہ موسیقی سننا۔ یادگار فلم دوبارہ دیکھنا۔ اب یہ سب کام ہو سکتے ہیں۔
ہمارے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ ہم جس آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ عارضی ہے۔ ایک دن حالات بہتر ہوں گے۔
جب ہم دلدل کا پھول بننے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ہم دلدل میں رہ کر بھی دلدل سے اوپر اٹھ سکیں گے اور وبا سے جسمانی اور ذہنی فاصلہ رکھنے سے صحتمند اور پرامید رہ سکیں گے۔ ہم سب کے لیے یہ اہم ہے کہ ہم پہلے اپنا خیال رکھیں اور پھر اپنے عزیزوں دوستوں اور رشتہ داروں کا خیال رکھیں۔ فون پر ای میل پر فیس بک پر ان سے محبت بھری باتیں کریں تا کہ ہم اس آزمائش کے دور میں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔
ہم اپنے مریضوں سے کہتے ہیں کہ انفرادی اور اجتماعی آزمائشیں عارضی ہوتی ہیں۔ انسانی حالات بگڑتے ہیں لیکن پھر سنور جاتے ہیں۔
جب ہم کسی سے محبت بھری میٹھی بات کرتے ہیں اور مشکل میں اس کا خیال رکھتے ہیں تو اسے وہ بات یاد رہ جاتی ہے۔ جب ہم کسی کی ہمت بندھاتے ہیں تو وہ ہم سے توانائی حاصل کر کے دوسروں کی ہمت بندھاتا ہے اور اس مثبت توانائی کو آگے بڑھاتا ہے۔ اسی طرح ہم پہلے اپنا پھر دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے پیاروں کی خدمت میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں اور یہ کشتی انسانیت کی کشتی ہے۔