دنیا بھر میں جسم فروش کارکنوں کی معیشت شدید مندے کا شکار ہو گئی ہے کیونکہ ہر جگہ حکومتیں عصمت فروشی کے اڈوں کو بند کرکے کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لئے کوشاں ہیں۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ سے تقریبا 100 کلومیٹر مغرب میں دولت دیا قحبہ خانے میں 1500 سے زیادہ جنسی کارکن مقیم ہیں۔ دولت دیا بنگلہ دیش کے سرکاری طور پر منظور شدہ 12 قحبہ خانوں میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق ہر روز یہان 5000 گاہک آتے ہیں۔
جمعہ کے روز بنگلہ دیش حکومت نے کم سے کم 5 اپریل تک تمام قحبہ خانے بند کرنے کا اعلان کیا – لیکن تمام جنسی کارکنوں کو 30 کلو چاول، 25 ڈالر نقد اور کرائے کی مد میں رعایت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ گولانڈا سب ڈسٹرکٹ کی ایگزیکٹو آفیسر روبایت حیات نے بتایا کہ اس ہفتے کے آخر تک امداد پہنچنے کی امید ہے۔ تاہم دولت دیا میں کام کرنے والی خواتین نے فوری مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کوٹھے کی اچانک بندش کی وجہ سے ان کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کے لئے خوراک خریدنے کے لئے رقم نہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے قحبہ خانے میں مقیم تیس سالہ جنسی کارکن کلپنا نے کہا کہ اگر ہمیں پہلے سے آگاہ کیا جاتا تو ہم زیادہ سے زیادہ بچت کرنے کی کوشش کر سکتی تھیں۔ اب، ہم میں سے اکثر کو بھوک سے بچنے کے لئے قرض لینا پڑے گا۔
35 سالہ لِلی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے 8 سالہ بیٹے کو رقم بھیجنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے جو قحبہ خانے سے باہر ایک کنبے کے ساتھ رہتا ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ اسے مناسب طریقے سے کھانا نہیں کھلایا جا رہا۔
بنگلہ دیش میں عصمت فروشی کی قانونی طور پر اجازت ہے اگرچہ اسے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں اب تک COVID-19 سے کم از کم 33 دیگر تصدیق شدہ متاثرہ افراد اور 3 اموات کی اطلاع ملی ہے۔ کلپنا کو حکومتی امداد کا یقین نہیں ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اگر اگلے ماہ تک پابندیاں ختم بھی کر دی گئیں تو مجھے نہیں لگتا کہ اس بیماری کی وجہ سے ایک طویل عرصے تک گاہک کوٹھے کا رخ کریںگے۔
جمعہ کی رات 7 بجے کا وقت ہے۔ عام طور پر برلن کے نواح میں اوریل جوہانس مارکس کا تین کمروں والا قحبہ خانہ اس وقت ابتدائی گاہکوں کے لئے تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ جرمنی کے دارالحکومت برلن کی شبینہ زندگی میں جسمفروشی کی روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ لیکن اب کورونا وائرس کے بارے میں خدشات کے باعث دنیا کا یہ قدیم ترین پیشہ بھی کساد بازاری کا شکار ہو گیا ہے۔
لنکاویٹزر قحبہ خانے کی نرم سرخ روشنی اور دیوار پر آویزاں بے باک تصاویر کے علاوہ واش بیسن کے ساتھ ہی جراثیم کش ڈسپینسر بھی لگائے گئے ہیں۔ جوہانس مارکس کے مطابق اس نے عملے کو تمام تولیوں اور چادروں کو گرم پانی میں دھونے اور تازہ ہوا کی آمد و رفت کے لئے کھڑکیاں کھلی رکھنے کو کہا ہے لیکن گاہک کا کہیں نام و نشان نہیں۔
“پچھلے ایک ہفتے میں کاروبار آدھا رہ گیا ہے۔” کورونا کی اطلاعات آنے کے بعد حکام نے سختی کرتے ہوئے قحبہ خانوں سمیت تفریحی مقامات کو عارضی طور پر بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ برلن شہر میں اب تک COVID-19 کے 332 تصدیق شدہ واقعات سامنے آئے ہیں جن میں اکثر کا تعلق شراب خانوں اور کلبوں سے پایا گیا ہے۔
جرمنی کی سابق جنسی کارکن اور جنسی رہنمائی فراہم کرنے والی تنظیم بی ای ایس ڈی کی ترجمان سوزن بلیئر وِلپ نے کہا ہے کہ جرمنی میں اندازاً ایک لاکھ سے دو لاکھ تک جنسی کارکنوں میں یہ وائرس خوف اور غیر یقینی صورتحال کا باعث بنا ہے جہاں کئی برس قبل جسم فروشی کو قانونی شکل دی گئی تھی.
بلیئر ولپ نے کہا، ” کچھ لوگ حفاظتی وجوہات کی بنا پر اس وقت مکمل طور پر کاروبار سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ دوسروں کو بھی اپنے گاہکوں سے جراثیم کش حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کرنا پڑتا ہے- طبی ماہروں کے مطابق جسمانی رابطے کے دوران اس وائرس کا پھیلاؤ مؤثر طریقے سے روکنا ممکن نہیں۔
ہالینڈ میں، ایمسٹرڈیم کے مشہور ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں حکومت کی جانب سے اسکول، شراب خانے اور ریستورانوں کے علاوہ سیکس کلب بھی تین ہفتوں کے لئے بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اتوار کی رات تک وہ گلیاں ویران تھیں جن کی کھڑکیوں سے نکلنے والی روشنیاں سیاحوں کے لئے مقناطیس جیسی کشش رکھتی تھیں۔ پیر کو یہ علاقہ بڑی حد تک خالی پڑا تھا۔ کورونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے کچھ جسم فروشوں نے شیشوں پر ٹیپ سے کاغذ چپکا رکھا تھا کہ “دفتر بند ہے”۔
ایمسٹرڈیم کی ایک سیکس ورکر نے ٹیلیفون انٹرویو میں کہا کہ اس کی بچت ختم ہو رہی ہے۔ اس لئے وہ پیسہ کمانے کے لئے ویب کیمنگ اور آن لائن کاروبار کی طرف پلٹ رہی ہے۔
بولیویا میں جنسی کارکنوں نے کورونا وائرس کا پھیلاؤ کم کرنے کے لئے رات کے وقت کرفیو کی مخالفت کی ہے۔ دارالحکومت لاپاز کے ایک غریب محلے ایل الٹو میں حکومت نے شام پانچ بجے سے صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کر رکھا ہے چنانچہ 50 سے زیادہ لائسنس یافتہ قحبہ خانے بند ہو گئے ہیں
بولیویا براعظم امریکہ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے اور وہاں کورونا وائرس کے 24 واقعات کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہاں ایک سیکس ورکر گریسل نے بتایا کہ وہ عام طور پر دن میں اپنے تین بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اور رات کو کام کرتی تھی۔ بولیویا کی بہت سی طوائفوں کی طرح وہ بھی جنسی کارکنوں کی تنظیم میں شامل ہے۔ ملک میں جسم فروشی قانونی ہے۔
گریسل نے کہا ، “ہم لوگ ویسے بھی زیادہ رقم نہیں کماتے۔ میں اپنی ضرورت کے لئے کام کرتی ہوں لیکن میں محتاط رہنے کی بھی کوشش کرتی ہوں۔”
بولیویا کی سیکس ورکر یونین کی نمائندہ للی کورٹس نے کہا ہے کہ اگر قانونی طور پر کام نہیں کرنے دیا جائے گا تو جنسی کارکن مجبور ہو کر سڑکوں پر کام کرنے نکلیں گے اور اس کا نتیجہ بدتر ہوگا۔
(بشکریہ ایکسپریس ٹریبون)