ایک تو کورونا وائرس کا خوف اور پھر اسی حالت میں آپ کو کسی کمرے میں الگ تھلگ رہنے کے لیے کہا جائے تو کیا ہو؟
کورونا ایک ایسی بیماری ہے جس کا ذکر اور خوف ہر جگہ ہے۔
اخباروں کی سرخیوں سے لے کر ٹی وی چینلوں اور ریڈیو کے اشتہاروں پر کوویڈ ۔19 کی روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر اور تجاویز پیش کی جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک طریقہ قرنطینہ ہے۔
میڈیسن نیٹ ویب سائٹ کے مطابق میڈیکل سائنس کی زبان میں قرنطینہ کا مطلب ہے: کسی متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کسی کو کچھ وقت کے لیے الگ رکھنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چونکہ کورونا بھی ایک متعدی بیماری ہے لہذا اس سے دوچار افراد یا متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کو الگ رکھا جا رہا ہے۔ بیرون ملک سے انڈیا آنے والے لوگوں کو بھی تقریباً دو ہفتوں کے لیے علیحدہ رکھا جا رہا ہے۔
چین سے واپس آنے والے انڈین کی کہانی۔۔۔
کچھ حالات میں لوگوں سے ‘از خود تنہائی’ میں رہنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ لیکن تنہا رہنا اتنا آسان نہیں ہے۔ بیماری اور انفیکشن کا خوف تنہائی میں اور بھی ستاتا ہے۔
لیکن کیا قرنطینہ یا علیحدگی کا عمل اتنا مشکل ہے جتنا لوگوں کو لگتا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لیے بی بی سی نے پروفیسر آشیش یادو سے بات کی جو حال ہی میں چین کے علاقے ووہان سے واپس آئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ووہان کورونا انفیکشن کا مرکز ہے۔
آشیش ووہان ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر کام کرتے تھے۔ ان کی بیوی ووہان میں ہی کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔
ووہان سے ہندوستان آنے کے بعد آشیش اور نیہا کو دلی کے علاقے چھاولا میں آئی ٹی بی پی (ہند تبتی بارڈر پولیس فورس) کے ‘سیلف آئیسولیشن مرکز’ میں رکھا گیا۔
آشیش اور نیہا چھاولا کے مرکز میں 27 فروری سے 13 مارچ تک قرنطینہ کی حالت میں رہے۔ جب مرکز میں رہنے والے تمام 112 افراد کا کورونا ٹیسٹ نفی میں آیا تو انھیں سنیچر کے روز جانے دیا گیا۔
قرنطینہ میں زندگی
27 فروری کو آئی ٹی بی پی کے اس مرکز میں 112 افراد لائے گئے جن میں انڈیا کے 76، بنگلہ دیش کے 23، چین کے چھ، میانمار اور مالدیپ سے دو دو، جنوبی افریقہ، میڈاغاسکر اور امریکہ سے ایک ایک فرد شامل ہے۔
انڈیا کے پریس انفارمیشن بیورو کے مطابق کیمپ میں آٹھ خاندان اور پانچ بچے تھے۔
آشیش کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی اہلیہ کو اس پانچ منزلہ کیمپ میں رہنے کے لیے ایک کمرہ دیا گیا تھا۔ قرنطینہ مرکز میں لوگوں کا دن صبح ساڑھے چھ بجے شروع ہوتا تھا۔
صبح کی چائے کے بعد تقریباً آٹھ بجے سب کو ناشتہ دیا جاتا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آکر سب کا میڈیکل چیک اپ کرواتی۔ جب لوگوں کو کوئی پریشانی محسوس ہوئی تو لوگوں کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا۔
آشیش نے کہا: ‘رات کے آٹھ بجے کے قریب ہم کھانے کے لیے ایک بڑے ڈائننگ ہال میں جمع ہوتے تھے۔ تاہم وہاں ہمیں ایک دوسرے سے ایک خاص فاصلہ برقرار رکھنا پڑتا تھا۔’
پابندیاں
قرنطینہ کیمپ میں رہنے والے لوگوں کے لیے سخت ہدایات اور پابندیاں تھیں۔
آشیش بتاتے ہیں: ‘ہم وہاں زیادہ مل جل نہیں سکتے تھے۔ کسی چیز کو چھونے کے بعد فوراً سینیٹائزر سے ہاتھوں کو صاف کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ہم اپنے ہاتھ تھوڑی تھوڑی دیر بعد دھوتے اور ماسک اتارنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم سوتے وقت بھی ماسک رکھتے تھے۔’
آشیش اور ان کی اہلیہ نیہا بھلے ہی ایک کمرے میں رہتے تھے لیکن ان کے بستر دور دور تھے تاکہ انفیکشن کے خطرے سے بچا جاسکے۔
ذہنی دباؤ اور خوف
آشیش کا کہنا ہے کہ ووہان سے آنے کے بعد وہ اور ان کی اہلیہ پہلے کچھ دن بہت خوفزدہ تھے۔
وہ وضاحت کرتے ہیں: ‘جب تک کہ ہمارے ابتدائی ٹیسٹ منفی نہیں آئے ہم بہت خوفزدہ تھے۔ مرکز میں کچھ لوگوں کے لیے باتھ روم اور بیت الخلا بانٹ دیئے گئے تھے لہذا اور بھی زیادہ خوفزدہ تھے۔ کیمپ میں رہنے والے تمام افراد ایک دوسرے کو دیکھنے کے بعد سوچتے تھے کہ کہیں سامنے والے کی رپورٹ مثبت نہ آئے۔
آشیش کا کہنا ہے کہ انھیں سب سے زیادہ وقت ڈائننگ ہال میں کھانے میں لگتا تھا۔
انھوں نے بتایا: ‘ہمیں کمرے میں کھانے کی اجازت نہیں تھی، لہذا ہر ایک ہال میں جمع ہوتا تھا۔ اگرچہ ہر ایک کو ایک فاصلے پر بٹھایا جاتا تھا لیکن اگر کسی کو ہلکی سی چھینک یا کھانسی ہو تو ہر کوئی گھبرا جاتا تھا۔’
نیند نہ آنا، گھبراہٹ اور چڑچڑاپن
آشیش کی اہلیہ نیہا کا کہنا ہے کہ ابتدائی چند دنوں میں انھیں خوف اور گھبراہٹ کے سبب نیند بھی نہیں آتی تھی۔
وہ کہتی ہیں: ‘کئی بار میں اور آشیش پوری رات باتیں کرتے رہتے تھے۔ تناؤ اتنا تھا کہ کسی سے فون پر بات کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔’
آشیش اور نیہا نے بتایا کہ کیمپ میں ایک 23 سالہ نوجوان تھا جس کا بلڈ پریشر بہت زیادہ ہو جاتا تھا اور ڈاکٹروں کو قابو کرنے کے لیے بہت جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔
وقت کاٹنا مشکل تھا
آشیش نے بتایا: ‘تقریبا ہر شخص خوفزدہ تھا لہذا گھبراہٹ، تناؤ اور چڑچڑے پن جیسے مسائل تھے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے لئے بھی وہاں ماہر نفسیات تھے۔ ہمیں صرف فون کرنا پڑتا اور وہ حاضر ہو جاتے اور ہماری باتیں سنتے۔’
آشیش اور نیہا کا کہنا ہے کہ اگر وہ دونوں اکیلے ہوتے تو انھیں وقت کاٹنا اور مشکل ہوجاتا۔
تاہم کیمپ میں ایک مقررہ مدت (لگ بھگ 14 دن) گزارنے کے بعد اب دونوں اترپردیش کے ایٹا میں واقع اپنے گاؤں آئے ہیں۔ گھر میں احتیاط کے طور پر ان سے 10-12 دن تک تنہا رہنے کو کہا گیا ہے۔
نیہا نے کہا: ‘ہم اس وقت علیحدہ کمروں میں رہ رہے ہیں۔ الگ الگ واش روم اور بیت الخلاء استعمال کر رہے ہیں۔ ہم بازار یا کہیں بھی باہر نہیں جاتے۔ ہم شاذ و نادر ہی اپنے کنبے کے لوگوں کے آس پاس جاتے ہیں۔’
آشیش اور نیہا سے کہا گیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی پریشانی میں ضلع کے سی ایم او سے رابطہ کریں۔
‘قرنطینہ کو سرپر سوار نہ کریں’
اب دونوں بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو قرنطینہ یا تنہائی کے نام پر خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
آشیش نے کہا: ‘ہم دونوں اپنے تجربے سے یہ بتا سکتے ہیں کہ اگر آپ مناسب طریقے سے تیاری کریں گے اور خود کو ذہنی طور پر مضبوط بنائیں تو تنہا رہنے میں کوئی دقت نہیں۔ ابتدائی طور پر تنہائی اور تناؤ آپ پر حاوی ہوسکتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ ٹھیک ہوجائے گا۔’
آشیش اور نیہا نے کہا کہ ان کا ووہان واپس جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
آشیش نے بتایا: ‘میں نے ابھی ووہان یونیورسٹی سے استعفی نہیں دیا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں مجھے ہندوستان میں ملازمت مل جائے گی اور یہاں نوکری ملتے ہی میں ووہان ٹیکسٹائل یونیورسٹی سے استعفیٰ دیدوں گا۔’
جبکہ نیہا اپنے تحقیقی کام کو ہندوستان سے ہی پورا کریں گی۔