مارکس ڈو سوٹے
وقت کو ماپنا ہو یا سمندروں میں جہازرانی کے لیے راستے تلاش کرنا، قدیم تہذیبوں میں ان سب کا انحصار ریاضی پر ہی تھا۔
انسانی تہذیب میں ریاضی کی ترقی کا قدیم مصر، یونان اور میسوپوٹیمیا (آج کے عراق) میں آغاز ہوا، مگر ان تہذیبوں کے زوال کے بعد ریاضی کی ترقی مغرب میں ہی رُک گئی۔
مشرق میں اگرچہ ریاضی کا استعمال اور تحقیق ایک نئ بلندی تک جا پہنچی۔
قدیم چین میں علمِ ریاضی ہی اہم کنجی تھی جس کے ذریعے حساب کتاب لگا کر ہزاروں میل پر پھیلی دیوار چین بنائی گئی۔ اور ریاضی کے اعداد اتنے اہم تھے کہ انھوں نے شاہی دربار کے معاملات کو چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
منصوبہ بندی میں ریاضی کا استعمال
ان ہی اعداد و شمار اور ستاروں کی چال کا حساب کتاب نہ صرف بادشاہوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بلکہ ان کے دن اور رات کے کام کے اوقات کار اور کیلنڈر کا بھی تعین اسی حساب کتاب سے کیا جاتا۔
قدیم شاہی مشیروں نے ایک ایسا نظام ترتیب دیا جس کا مقصد یہ یقینی بنانا تھا کہ شہنشاہ اپنے حرم میں بہت سی خواتین کے ساتھ سو سکیں۔
اس نظام کی بنیاد حساب کے ایک ایسے خیال پر رکھی گئی تھی جسے ’جیومیٹرک پروگریشن‘ کہتے ہیں یعنی ہندسوں میں کسی ایک بنیادی عدد سے ضرب دے کر اضافے کا سلسلہ۔
اس حساب کے تحت یہ سامنے آیا کہ بادشاہ کو 15 راتوں میں 121 خواتین کے ساتھ سونا تھا۔ جن کی تقسیم کچھ یوں بنتی ہے:
- ایک ملکہ
- تین سنیئر ساتھی
- 9 بیویاں
- 27 کنیزیں
- 81 لونڈیاں
اس حساب سے خواتین کا ہر گروپ پچھلے گروپ سے تین گنا بڑا بنتا تھا۔ لہٰذا ریاضی دانوں کو یہ یقینی بنانا ہوتا تھا کہ 15 راتوں میں بادشاہ ہر عورت کے ساتھ حرم میں ہم بستری کر سکے۔
بادشاہ کی جنسی صلاحیت
پہلی رات ملکہ کے لیے مخصوص ہوتی تھی، اگلی رات تین ساتھی بادشاہ کے حرم میں ہوتیں۔ نو بیویوں کی باری ان کے بعد آتی۔
اور ان کے بعد 27 کنیزوں میں سے نو کو ہر رات کے لیے باری باری چنا جاتا تھا۔ اور آخری نو راتوں میں 81 لونڈیوں کی باری آتی جنھیں 9 کے گروہ میں ہر رات بادشاہ کے حرم میں بھیجا جاتا۔
اس کیلنڈر کے حساب کتاب میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ مکمل چاند کے قریبی وقت میں شاہی درجے کی خواتین کو بادشاہ کے ساتھ حرم میں رکھا جائے جب ’یِن‘ یعنی عورت کی جنسی قوت اپنے عروج پر ہو اور وہ مرد یعنی بادشاہ کی جنسی قوت ’یانگ‘ کے برابر ہو سکے۔
حکمران ہونے کی وجہ سے یقینی طور پر انھیں جنسی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس کا مقصد واضح تھا کہ سب سے بہتر شاہی وارث حاصل کیا جا سکے گا۔
بادشاہ کے دربار کا انحصار صرف ریاضی پر نہیں تھا بلکہ یہ ریاست کے دیگر معاملات چلانے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔
ریاضی میں دلچسپی
قدیم چین کی سلطنت ایک سخت قسم کے آئین کے تحت وسیع سے وسیع تر ہو رہی تھی جس میں ٹیکسوں کا، اوزان کا، پیمائش اور دولت کے ماپنے کا ایک بڑا نظام تھا۔
چین نے ڈیسیمل سسٹم (10 کی بنیاد کے اعدادی نظام) کو مغرب سے 1000 سال پہلے اپنا لیا تھا اور ریاضی کے سوالات کو حل کرنے کے ان طریقوں کو استعمال کیا جا رہا تھا جس کو مغرب نے 19 ویں صدی کی ابتدا میں اپنایا۔
قدیم روایتی داستانوں کے مطابق، چین کے پہلے خود مختار حکمران، یلو بادشاہ اور ان کے ساتھیوں نے 2800 قبل مسیح میں ریاضی کا دیوتا تخلیق کیا تھا اور وہ یقین رکھتے تھے کہ اعداد کائنات پر اثر رکھتے ہیں اور آج تک عام چینی بھی اعداد و شمار کی پراسرار طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔
چین کے اعداد و شمار کے علم میں طاق ہندسے مردوں کے لیے، جفت ہندسے عورتوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ چار کے ہندسے سے ہر صورت میں بچنا ہوتا ہے اور آٹھ کا ہندسہ خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
قدیم چینیوں نے اعداد کے ایک کھیل ’سدوکو‘ کا اپنا ورژن تیار کر رکھا تھا جس میں وہ اعداد کو خاص ترتیب میں استعمال کرتے تھے۔
چھٹی صدی عیسوی میں علم فلکیات میں ستاروں کی چال دیکھنے کے لیے چینی ’ریسٹ تھیوریم‘ کا استعمال کرتے تھے۔ اور آج بھی اس کے کئی استعمال ہیں۔
انٹرنیٹ کی کرپٹوگرافی یا رمزنویسی کے کوڈز بنانے میں ریاضی کے وہ طریقے استعمال کیے جاتے ہیں جن کی جڑیں چینیوں کی ’ریسٹ تھیوری‘ میں ہیں۔
(نوٹ: یہ رپورٹ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر اس سے پہلے 19 مئی 2019 کو شائع ہو چکی ہے)