محبت الوداع :رشی کپور

 

”Love loves to love love.“
— James Joyce
”The one thing we can never get enough of is love. And the one thing we never give enough is love.“
— Henry Miller
پہلے عرفان خان پھر رشی کپور۔ بالی ووڈ میں سناٹا پسرا ہے۔ اس وقت یہ سناٹا میرے اندر بھی ہے۔ لفظ گونگے ہیں۔ شہنایی کی آواز ماتم میں تبدیل۔ امیر خسرو اور مولانا روم کی بانسری کی آواز میں ایک دھندلی دھنلی شبیہ اترتی ہے۔ میں۔ محبت ہوں۔ الوداع۔ ویسے بھی اب اس دنیا کو میری ضرورت نہیں۔ تمہاری دنیا میں ایڈز ہے، کرونا ہے اور کینسر اور فاشزم ہے۔ محبت لڑ نہیں سکتی۔ محبت الوداع۔
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وا ز جدائی ہا شکایت می کند
بانسری جو کچھ بیان کرتی ہے، وہ جدایی کی موسیقی ہے۔ کچھ بہتر لوگ وبا کے ان دنوں میں بھی ہمارے ساتھ تھے۔ اب ایسے لوگ رخصت ہو رہے ہیں۔ فنکار یا تو کسی مذہب کا نہیں ہوتا یا تمام مذہب اس کے خون میں شامل رہتے ہیں۔ اور فنکار کا اصل مذہب ہے۔ محبت۔ رشی تو سراپا محبت تھا۔ اس کی آنکھیں۔ اس کا حسین چہرہ، اس کی سدابہار مسکراہٹ۔ اس کے سرخ ہونٹ۔ رشی کپور محبت کے کسی یونانی دیوتا سے کم نہیں تھا۔ ستمبر 2019، جب امریکہ سے علاج کرا کر واپس لوٹا تو اس نے ٹویٹر پر لکھا۔ آیی ایم کم بیک۔ تب کس نے سوچا تھا، محبت کی اس لازوال مسکراہٹ کو بجھنے میں صرف سات مہینے باقی ہیں۔ اور سات مہینے بعد محبت ہندوستان سے اپنا رشتہ توڑ دے گی ۔
پہلی فلم آر کے بینر کی بابی تھی۔ لیجنڈ باپ نے بیٹے کو پہلا بریک دیا تھا۔ کہانی تھی، خواجہ احمد عباس کی۔ خواجہ نے رشی کے لئے ایک محبت بھری کہانی لکھی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے بابی نے ہر محبت کرنے والے دل میں اپنی جگہ بنا لی۔ فلم بابی کے ایک منظر میں غریب ڈمپل کپاڈیہ کا باپ اس سے کہتا ہے کہ تم اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے جارہی ہو تو خیال رہے، پیسے تم خرچ کروگی۔ ٹکٹ تم لوگی۔ اسے پتہ تو چلے کہ تمہارے باپ کے پاس بھی بہت پیسہ ہے۔
اور اس خواب کی حد دیکھئے کہ فلم کے انجام میں ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ لڑکے کا امیر باپ، غریب باپ کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کو تلاش کررہا ہے۔ اور یہاں محبت کی فتح ہوتی ہے، خواب اور محبت کا سفرخواجہ صاحب کے نظریات کا ایک پہلو تھا تو دوسرا قومی یکجہتی اور لسانی یکجہتی سے ہوکر گزرتا ہے۔ اور کمال دیکھئے، اس پر آشوب موسم میں، نفرتوں کے موسم میں دو بڑے فلمی چہرے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے خاموشی سے لمبے سفر پر نکل جاتے ہیں۔
ایک کو سنجیدگی پسند تھی اور دوسرے کو محبت۔ قرض، ساگر جیسی فلموں سے ہندوستانی محبت کے نیے دیوتا کا جنم ہو چکا تھا۔ ستر کی دہایی اس محبت پر فدا تھی تو 80 کی دہایی اور 90 کی دہایی میں محبت نیے روپ، نیے انداز میں ڈھلنے لگی تھی۔ مگر۔ محبت زندہ تھی۔ ہمیشہ قائم رہنے والی محبت اس چہرے کی سدابہار مسکراہٹ پر فدا تھی، جس کا نام رشی کپور تھا۔
اہ محبت۔ ہزاروں کہانیاں روشن ہیں۔ چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں۔ ، نیتو سنگھ آر کے کے بینر ’بوبی‘ میں رشی کپور کے ساتھ اداکاری کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی بجائے اس فلم میں ڈمپل کپاڈیا کو، راج کپور نے یہ کردار پیش کیا۔ دراصل راج کپور ’بوبی‘ کے لئے ایک تازہ چہرہ چاہتے تھے اور اس وقت تک نیتو سنگھ نے کچھ فلمیں کی ہوئی تھیں۔ بوبی اپنے وقت کی سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم میں ڈمپل کپاڈیا کے ساتھ کام کرتے ہوئے رشی کپور کا دل ان کے لئے دھڑکنے لگا تھا، لیکن پاپا راج کپور کو یہ پسند نہیں آیا اور رشی کپورڈمپل سے الگ ہو گئے۔
کیوں ہو گئے؟ ڈمپل کا راجکپور سے کیا رشتہ تھا ؟ ایک زمانہ تھا جب ان کہانیوں نے بالی ووڈ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ نیتو اور رشی کپور نے مل کر کئی فلمیں کیں۔ ’رفو چکر‘ ، ’دوسراآدمی‘ ، ’کبھی کبھی‘ ، ’امر اکبر انتھونی‘ جیسی فلموں میں اس جوڑے نے اسکرین پر حیرت انگیز کیمسٹری دکھائی، شائقین نے پسند کیا۔ نیتو سنگھ اور رشی کپور بالی ووڈ کے سب سے حسین رومانٹک جوڑے کہلاے۔ وقت گزرتا گیا۔ اس خاندان میں ایک اور ستارہ نے جنم لیا۔ رنبیر کپور، رشی کو کینسر ہوا۔ اس دوران نیتو سنگھ نے ان کا خیال رکھا۔ یہ جوڑی محبت کی جوڑی تھی۔
رشی نے بہت سی فلموں میں سنجیدہ اداکاری بھی کی۔ وہ زبردست ایکٹر تھے۔ کپور خاندان میں راج کپور کے علاوہ ششی کپور نے بھی عمدہ معیاری فلموں کا راستہ اپنایا۔ رشی سب سے الگ تھے۔ وہ سیاست پر بھی باتیں کرتے تھے۔ ان کی بہت سی باتوں نے کنٹروورسی پیدا کی۔ مگر آخر تک یہ ستارہ محبت کا ستارہ ہی رہا۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ مجھے رشی کی زندگی اور فلموں سے زیادہ اس چہرے میں دلچسپی ہے، جہاں محبت کا نور روشن تھا۔ جہاں محبت کے دیوتا کیوپڈ کا بسیرا تھا۔ جس کے محبت کے تیر دلوں سے نفرت کے ہر زہر کو نکال دیتے تھے۔ 67 برس کی عمر کوئی زیادہ عمر نہیں۔ مگر۔ محبت سو بھی سکتی ہے۔ ہمارے درمیاں سے رخصت بھی ہو سکتی ہے۔
ابھی، جب پوری دنیا کو محبت کی ضرورت ہے، کیوپڈ نے آنکھیں بند کر لی ہیں۔
یہ جدایی کی موسیقی ہے جو فضا میں گونج رہی ہے۔ الوداع محبت۔ اب میں موسم بہار کے اس موسم میں لوٹوں گی، جب فضا میں آلودگی، سرخی اور سیاہی نہ ہو گی۔
بھلا کوئی ایسا موسم بھی ہو سکتا ہے؟
پیارے رشی۔ ہم تمہیں یاد رکھیں گے۔