پنکج پریادرشی
ہندی فلمی صنعت میں کپور خاندان ایک الگ مقام رکھتا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اس خاندان میں شو مین راج کپور کے بعد جس فرد نے اپنی ایک الگ پہچان بنائی وہ رشی کپور تھے تو غلط نہ ہو گا۔
رشی کپور کی اداکاری کے علاوہ ان کا مزاج لوگوں کو بہت پسند تھا۔ انھوں نے کبھی انکار نہیں کیا کہ وہ بہت زیادہ شراب پیتے تھے اور نہ کبھی اس بات کو ماننے سے انکار کیا کہ ان کے بیٹے رنبیر کپور اور ان کے درمیان جنریشن گیپ موجود ہے۔
ایمانداری سے رائے دینے میں نہ ہچکچانے کی وجہ سے انھیں سوشل میڈیا پر بھی ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جانب سے اکثر رات گئے کی جانے والی بہت سی ٹویٹس خاصی مزاحیہ ہوتی تھیں اور ان کی وجہ سے کئی بار وہ مشکل میں بھی آئے۔
سنہ 2017 میں ان کی آپ بیتی ’کھلم کھلا‘ کے نام سے شائع ہوئی تو وہ بھی خبروں میں رہی کیونکہ رشی کپور نے اس میں بہت ساری چیزیں کھل کر لکھیں۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں رشی کپور کی کچھ کھلم کھلا باتوں پر جن سے لوگ تو واقف تھے لیکن کپور خاندان میں کسی نے بھی کھل کر ان پر بات نہیں کی تھی۔
راج کپور کے غیر ازدواجی تعلقات کا معاملہ
رشی کپور نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ ان کے والد راج کپور نے شادی کے بعد بھی بہت سی خواتین سے تعلقات استوار کیے تھے۔
اس سلسلے میں انھوں نے راج کپور کے نرگس اور وجنتی مالا کے ساتھ تعلقات پر کھل کر بات کی۔
راج کپور کی وہ روسی ہیروئن اب کہاں ہے؟
رشی کپور نے اس بارے میں لکھا کہ کس طرح وہ اور ان کی والدہ پہلے ایک ہوٹل اور پھر چترکوٹ کے ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئے۔
انھوں نے یہ بھی بیان کیا کہ کیسے ان کے والد راج کپور ان کی ماں کو منانے کی کوشش کرتے تھے۔
رشی کپور کے مطابق، ان کی والدہ کرشنا کپور نے ہمت نہیں ہاری اور جب راج کپور ان تعلقات سے دستبردار ہوئے تو وہ واپس ان کے پاس چلی گئیں۔ ان دنوں رشی کپور جوان تھے۔
نیتو سنگھ سے پہلے کی محبت
رشی کپور اور نیتو سنگھ کی شادی بالی وڈ کی مشہور شادیوں میں سے ایک تھی لیکن اپنی کتاب میں رشی کپور نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس سے قبل ایک پارسی لڑکی کے دیوانے تھے۔ انھوں نے کتاب میں لکھا ہے کہ اس پارسی لڑکی کا نام یاسمین مہتا تھا۔
یہ واقعہ ان کی پہلی فلم ’بوبی‘ سے پہلے کا ہے۔ جب بوبی آئی تو بہت سے فلمی رسالوں نے رشی کپور اور ڈمپل کپاڈیہ کے تعلقات کو خبروں کا موضوع بنا لیا۔
اس وقت سٹار ڈسٹ میگزین نے بھی اس پر ایک کہانی کی تھی۔ خیال رہے کہ اس وقت ڈمپل کپاڈیہ اور راجیش کھنہ کی شادی ہو چکی تھی۔
رشی کپور نے اعتراف کیا کہ ان خبروں سے ان کے تعلقات متاثر ہوئے۔ اس گپ شپ نے رشی کپور اور یاسمین کے مابین تعلقات کو ختم کردیا۔ رشی کپور کے مطابق انھوں نے یاسمین کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
جب راجیش کھنہ ناراض ہوگئے
یاسمین مہتا اور ڈمپل کپاڈیہ سے متعلق ایک اور کہانی رشی کپور نے اپنی کتاب میں شیئر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اور یاسمین ساتھ تھے تو یاسمین نے انھیں ایک انگوٹھی تحفے میں دی۔
’بوبی‘ کی شوٹنگ کے دوران، ڈمپل نے وہ انگوٹھی اپنے ہاتھ میں پہنی اور پھر وہ ان کے پاس ہی رپی۔
جب راجیش کھنہ نے ڈمپل کپاڈیہ کو شادی کا پیغام دیا کیا تو انھوں نے وہ انگوٹھی ڈمپل کی انگلی میں دیکھی اور اسے اتار کر جوہو میں واقع اپنے گھر کے قریب سمندر میں پھینک دیا۔
اسی تسلسل میں رشی کپور نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ڈمپل سے کبھی محبت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان کی طرف راغب ہوئے تھے۔
امیتابھ نے کریڈٹ نہیں دیا
کپور خاندان کا امیتابھ بچن سے رشتہ تھا لیکن رشی کپور نے امیتابھ کے بارے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اپنی کتاب میں انھوں نے لکھا کہ کس طرح ملٹی سٹارر ایکشن فلموں میں کام کرنا سیکنڈ لیڈ یعنی فلم میں ہیرو کے ساتھ اہم کردار ادا کرنے والے فنکار کے لیے مشکل تھا۔
یہ وہ دن تھے جب بالی وڈ میں ایکشن فلموں میں کئی ہیرو ساتھ کام کیا کرتے تھے لیکن اگر فلم کامیاب ہوتی تو مرکزی کردار ادا کرنے والا اداکار کریڈٹ لے لیتا۔
رشی کپورکے مطابق کہ یہ مسئلہ صرف ان کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ششی کپور، ونود کھنہ اور شتروگھن سنہا بھی اس پریشانی سے دوچار تھے۔
رشی کپور نے لکھا ’اگرچہ ہم چھوٹے ستارے تھے لیکن اداکاری میں کم نہیں تھے۔ لیکن امیتابھ بچن نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔ نہ کسی انٹرویو میں اور نہ ہی کسی کتاب میں۔ امیتابھ بچن نے اپنے ساتھ کام کرنے والے اداکاروں کو اتنی ساکھ نہیں دی‘۔
جب ایوارڈ خریدا
رشی کپور نے اپنے اور امیتابھ بچن کے تعلقات کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ بوبی کے لیے بہترین اداکار کے ایوارڈ کی وجہ سے امیتابھ ان سے ناراض تھے۔
رشی کپور کے مطابق، امیتابھ بچن کو امید تھی کہ انھیں زنجیر کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ مل جائے گا لیکن یہ ایوارڈ رشی کپور کے حصے میں آیا۔
تاہم رشی کپور نے کتاب میں اعتراف کیا کہ انھوں نے یہ ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے پیسے دیے تھے۔
وہ لکھتے ہیں ’مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ میں نے یہ ایوارڈ خریدا تھا۔‘
ان کے مطابق انھیں کہا گیا کہ ’سر ، 30 ہزار دیں، میں یہ ایوارڈ آپ کو دلوا دوں گا۔‘ رشی کپور نے کہا کہ انھوں نے بغیر سوچے سمجھے رقم دی اور ایوارڈ انھیں مل گیا۔
ناکامی کا غصہ نیتو سنگھ پر نکالا
جہاں رشی کپور نے شہرت دیکھی تو وہیں انھیں ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
جب ’بوبی‘ انتہائی کامیاب ہوئی تو رشی کپور مشہور ہو گئے اور پھر ان کے پاس بہت ساری فلمیں تھیں۔
لوگوں نے ان فلموں سے بہت سی توقعات لگا رکھی تھیں لیکن وہ باکس آفس پر ناکام رہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب رشی اور نیتو سنگھ کی شادی ہو چکی تھی۔
رشی کپور کے مطابق وہ زمانہ ان کے لیے مایوس کن تھا اور اسی مایوسی میں انھوں نے اپنی ناکامی کے لیے نیتو سنگھ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا۔
نیتو سنگھ حاملہ تھیں لیکن اس صورتحال میں بھی انھیں رشی کپور کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔
رشی کپور نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا کہ وہ اپنے اہلخانہ اور دوستوں کے تعاون کی وجہ سے ہی اس دور سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کے مطابق انھیں پھر اس بات کا احساس ہوا کہ اس وقت نیتو سنگھ کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔
جاوید اختر پر طنز
رشی کپور کبھی بھی سلیم-جاوید کی جوڑی سے متاثر نہیں تھے۔
انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کیسے وہ ان کے دوست جاوید اختر کی فلم ایمان دھرم کی ناکامی کے بعد انھیں چھیڑنے کے لیے ان کے اپارٹمنٹ پر گئے تھے۔
جاوید اختر نے انھیں یہ بھی کہا تھا کہ ان کا اگلی فلم ’بوبی‘ سے بڑی ہٹ ہو گی۔
تاہم بعد میں انھوں نے سلیم-جاوید کی جوڑی کے ساتھ متعدد فلموں میں کام کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی یادگار فلم نہیں تھی۔
رشی کپور نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ اس ٹی وی انٹرویو کے لیے جاوید اختر کو کبھی معاف نہیں کر سکیں گے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ نغمہ نگار شیلندر کی بے وقت موت کے لیے راج کپور ذمہ دار تھے۔
رنبیر کپور کے ساتھ تعلقات
رشی کپور نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ ان کے بیٹے رنبیر کپور نے شاذ و نادر ہی ان سے کھل کر بات کی۔ ان کے مطابق رنبیر اپنی ماں سے زیادہ باتیں کرتا تھا۔
رشی کپور کے مطابق انھوں نے رنبیر کے کریئر میں کبھی مداخلت نہیں کی۔
اگرچہ انھیں رنبیر کی ابتدائی فلموں پر اعتراض تھا لیکن رشی کپور کا خیال تھا کہ فلم ’برفی‘ سے رنبیر کا کام بہتر ہو گیا۔
رشی کپور نے رنبیر کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں لکھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچے کیا کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مستقبل میں میرے اور ڈبو کے بچے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔ وہ آر کے بینر کو کیسے زندہ رکھیں گے اور اس میراث کو آگے کیسے لے جائیں گے۔‘