کیا موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن نرم کرنا مناسب ہے؟


امریکی ریاست انڈیانا کے شہر اناپولس میں گورنر ہاؤس کے باہر لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ۔ 18 اپریل 2020

صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے کے لئے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے والے لاک ڈاؤن کو محفوظ طریقے سے بتدریج ختم کرنے فیصلے کو متعدد امریکی ریاستوں کے گورنر موجودہ صورت حال میں قابل قبول نہیں سمجھتے۔ جبکہ بعض دوسری ریاستوں میں اس فیصلے کے مطابق پابندیاں بتدریج نرم کرنے کے لئے تیاریاں کی جارہی ہیں۔
ادھر بعض ریاستوں میں لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لئے مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ اور لوگ اس خوف سے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوا تو انہیں بے روزگاری اور معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے، امریکہ میں بیروزگاری کی سطح میں،، جو اس سے پہلے دو اعشاریہ پانچ پر آ گئی تھی، اب بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اور بے روزگاری کے معاوضے کے طلب گاروں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اور صدر ٹرمپ اسی لئے بتدریج ملک میں پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ معاشی سر گرمیاں بحال ہو سکیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کم و بیش یہ ہی صورت حال پاکستان میں بھی درپیش ہے جہاں حکومت کا موقف یہ ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن ملک کی پہلے سے کمزور معیشت کو تباہ کر دے گا اور بھوک اور بیروزگاری میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہو جائے گا۔ جب کہ اس کے برخلاف موقف رکھنے والوں کا استدلال ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن نہ ہونے کی صورت میں وبا کنٹرول نہیں ہو سکے گی اور اس حوالے سے وفاق اور صوبہ سندھ میں جہاں حزب مخالف کی ایک پارٹی کی حکومت ہے شدید اختلافات ہیں۔
کم و بیش یہ ہی صورت حال بعض دوسرے ملکوں میں بھی ہے۔ اور امریکہ میں اب بعض مقامات پر لوگ سڑکوں پر بھی نکل آئے ہیں۔
یہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کا سال اور دونوں پارٹیوں یعنی ڈیمو کریٹک پارٹی اور ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی نظریں نومبر کے انتخابات پر ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا حامی بنانے اور اپنی جانب مائل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
نیو یارک سٹی یونیورسٹی میں Community and Ethenic media کے کو ڈائریکٹر اور تجزیہ کار جہانگیر خٹک کہتے ہیں کہ یہ سب کے لئے ایک مشکل فیصلہ ہے۔ صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ محفوظ انداز میں بتدریج لاک ڈاؤن ختم کیا جائے تاکہ معیشت چل سکے اور انتخابی سال کے دوران بے روزگاری بڑھنے نہ پائے۔ جب کہ وہ ریاستیں جہاں حالات بدستور خراب ہیں جیسے نیو یارک ہے وہ اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور اس وقت تک اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانا نہیں چاہتیں جب تک کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے ماہرین اور ذمہ دار مطمئن نہ ہو جائیں۔
انہوں نے کہا یہ دوہری مشکل ہے۔ امریکہ معیشت کو غیر معینہ مدت تک بند رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری جانب لاک ڈاؤن ختم کرنے کے خطرات کی سنگینی سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
انہوں کہا کہ اس سلسلے میں کسی صحیح نتیجے ہر پہنچنے کے لئے سیاست کی بجائے ڈیٹا سائنس اور میڈیکل سائنس سے رہنمائی حاصل کی جانی چاہئے۔ اور انہی کے پیش کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں کوئی حتمی فیصلہ کیا جانا چاہئے۔
متعددی امراض کے ممتاز ماہر ڈاکٹر ساجد چوہدری نے بھی وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل سائٹس کا سادہ سا اصول ہے کہ اس بیماری سے متاثرہ لوگوں کو صحت مند لوگوں سے دور رکھا جائے اور جب اس اصول کو سامنے رکھ کر آج امریکہ کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ لاک ڈاؤن کو اس مرحلے پر بتدریج ہی سہی، ختم کرنے کا فیصلہ قبل از وقت ہے اور ابھی اس سلسلے میں مزید انتظار کی ضرورت ہے۔
انہوں کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت معیشت کا دباؤ ہے۔ اور دو ہی متبادل ہیں کہ اس وقت لاک ڈاؤن کو ختم کر کے مستقبل میں اس وائرس کے مزید پھیلنے کا خطرہ مول لیا جائے یا اس وقت معاشی دباؤ کو برداشت کر کے مستقبل میں اس وبا کے خطرے کو ختم کر دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ چین کا ماڈل ہمارے سامنے ہے جس نے دوسرے طریقے پر عمل کر کے اس بیماری کے پھیلاؤ کے خطرے پر قابو پا لیا۔
ایک اور ممتاز سیاسی تجزیہ کار مسعود ابدالی کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے عام آدمی میں الجھن اور بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو گی۔ کیونکہ امریکہ معاشی اسباب کی بنا پر نہ تو غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ بغیر کسی سائنٹیفک ڈیٹا کے بتدریج ہی سہی عجلت میں لاک ڈاؤن ختم کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خطرناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نومبر کے صدارتی انتخاب اور سیاست سے بالا تر ہو کر حقائق کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کئے جائیں۔