معروف پاکستانی ماڈل و اداکارہ فریحہ الطاف نے بچپن میں والدین کی عدم موجودگی میں اپنے ہی گھر کے بنگلہ دیشی خانسامے کی طرف سے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دو ہفتے بعد والدین کی واپسی پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا لیکن پھر جب والدہ کو بتایا تو فوری طور پر ملزم کو پولیس کے حوالے کردیا گیا اور بعدازاں اسے ڈی پورٹ کردیا گیا۔
اپنے ایک انٹرویو میں فریحہ الطاف نے بتایاکہ بچپن میں 1970ءکی بات ہے، میرے والدین چھٹیوں پر ایکسپو جاپان میں گئے ہوئے تھے۔ اس وقت ہمیں کزنز کے ساتھ چھوڑ کر گئے تھے ، ہم لوگ چار بہن بھائی ہیں اور میں سب سے بڑی ہوں، اس وقت میں چھ سے ساڑھے چھ سال کی تھی ، ہمارے گھر میں جو ملازم تھے ان میں ایک بنگالی کُک تھا، اس وقت بچوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا، والدین نے بھی کچھ نہیں بتایا تھا، اس نے اس وقت کا فائدہ اٹھایا، میرے ماں باپ بھی ملک سے باہر تھے اور جو کزنز تھے اتنے میچور نہیں تھے، یا اتنا علم نہیں تھا۔ اس شخص نے پھر میرے ساتھ جو کیا، اس وقت میں کہنا نہیں چاہوں گی، ماں باپ میرے دو ہفتے تک نہیں تھے تو یہ چیز جاری رہی اور جب وہ آ بھی گئے تو وہ اس وقت بہت بولڈ ہوگیا تھا اور یہ چیز جاری رہی۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ امی کی واپسی کے بعد نامعلوم میرے میں کہاں سے ہمت آئی، میں نے جا کر امی کو بتا دیا، میرے ماں باپ تو ایجوکیٹڈ لوگ ہیں، تو انہوں نے فوراً توجہ دی اور اسے پولیس کے حوالے کروادیا۔ اسے پولیس کے حوالے کروانے سے یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے ہمسائے میں ایک بنگالی کُک تھا تو وہ ان کی بچی کے ساتھ بھی یہی حرکت کررہا تھا، وہ بھی پکڑا گیا اور پھر اس کو انہوں نے ڈی پورٹ کروادیا، اس وقت سمجھ مجھے بھی نہیں آئی اور نہ مجھے سمجھایا گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے، صرف یہ پتہ تھا کہ برا ہورہا ہے، اور میں اس سے تو بچ گئی۔
اداکارہ کاکہناتھاکہ یہ بات کی نہیں جاتی، مجھے بھی یہی بولا گیا کہ اس کے بارے میں آپ نے چپ رہنا ہے، سوسائٹی اور خاندان کی عزت کا سوال ہے ، میری امی کو نروس بریک ڈاﺅن ہوگیا اس قصے کے بعد کیونکہ وہ ہینڈل نہیں کرپائیں لیکن ان کا جو نروس بریک ڈاﺅن بھی ہے اس کو بھی سمجھا جاتا ہے کہ اس کو بھی چھپانا ہے خاندان سے باہر بات نہ جائے، یہ بہت امپورٹنٹ ہے۔
ان کاکہناتھاکہ اس قصے کی 28 سال تک بات نہیں کی اور چپ رہے ، جب میں کینیڈا گئی اور میری شادی ہوئی اور میری شادی کامیاب نہیں ہوئی اور اس شادی میں پانچ سال کی میرج تھی، میرے دو بچے تھے ، بہت زیادہ تکلیف میں تھی ، میری زندگی کافی انسٹیبل تھی تو مجھے محسوس ہوا اور جب میں نے کاﺅنسلنگ کی تو مجھے اس وقت تک سمجھ آگئی تھی کہ یہ سارا کچھ اور جو میری ذاتی زندگی خراب ہے اور جو میں خاوند کے ساتھ برداشت کررہی ہوں، اتنی باہمت خاتون ہوں اور اتنی کامیاب ہوں ، میری پرسنل لائف خراب ہے۔ میرے ساتھ میرے خاوند کی جس طرح کی حرکتیں تھیں، میں کاﺅنسلنگ کے لیے گئی اور انہوں نے کہا کہ آپ کو بات سمجھ آگئی ہے کہ تو آپ کو کاﺅنسلنگ کی ضرورت نہیں، اس وقت جب میں34 سال کی تھی تو یہ بات واپس باہر نکلی، مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی میں انسٹیبلٹی تھی وہ کہاں سے آرہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا جو کچھ بھی بچپن میں ہوتا ہے، وہ سارا آپ کی زندگی کو اثرانداز کرتا ہے، پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کو ایڈریس نہیں کرتے، اس وقت میری بہن مجھ سے چھوٹی تھی، اس نے بھی مجھ سے بات نہیں کی تھی کیونکہ ہم سب چپ بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت میرے والد کی وفات ہوچکی تھی اور میں نے اپنی امی سے بات کی کہ اس چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ،آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگر میری طلاق ہورہی ہے، میری ریلیشن شپ ٹھیک نہیں ہے، یا اگر مجھ میں بہت زیادہ غصہ ہے تو یہ سارا کچھ کہیں اور سے نکل کرآرہا ہے، میری اپنی کوئی سیلف رسپیکٹ نہیں ، میں اپنے آپ کو ڈری سمجھتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی غلط حرکت کررہا ہے تو میں یہ ڈیزرو کرتی ہوں کیونکہ یہ ساری چیزیں بچپن کے قصے کی وجہ سےمیرے ساتھ جوڑ چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کے بارے میں ہماری سوسائٹی میں کوئی بات نہیں کرتا، اس وقت سے یہ چیز میرے دماغ میں تھی ، اس قصے نے اتنا ایفیکٹ کیا ، اس کے بعد میں نے بات کرنا شروع کی۔میں نے اپنی قریبی دوستوں سے باتیں کرنا شروع کردی تھیں، اس کے بعد مجھے پتہ چلنا شروع ہوا کہ سب کے ساتھ یہ ہورہا ہے اور میں اتنی سرپرائز ہوگئی کہ یہ پاکستان میں اتنا زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کہتے ہیں کہ غریبوں میں یہ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ ایلیٹ سوسائٹی میں بھی ہوتا ہے۔
ملازمین کے بارے میں سوال پر فریحہ الطاف نے بتایا کہ ملازمین سے زیادہ رشتہ دار، سب سے زیادہ جو آپ کے سب سے قریب ہوتے ہیں، جن سے بھی میں نے بات کی ہے اور وہی جن پر آپ ٹرسٹ کرتے ہیں، آپ کے مولوی صاحب، آپ کے نوکر، آپ کے کزنز اور سوتیلے باپ، اس طرح کے جو لوگ ہیں جو آپ کے اردگرد گھوم رہے ہوتے ہیں ، جن کو آپ ٹرسٹ کرتے ہو، ان سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ میں تو خوش قسمت تھی کہ میرے ماں باپ نے میری بات سن لی اور میرا یقین کر لیا، کیونکہ امی کے ساتھ میری ریلیشن شپ بہت اچھی تھی، ابو سے بہت ڈر لگتا تھا۔ یہ بھی ایک پرابلم ہے کہ ہم اپنے ماں باپ سے اتنا ڈرتے ہیں کہ آگے سے بات نہ کرو، آپ بول ہی نہیں پاتے، اس وقت میں بالکل ہی ڈری ہوئی تھی اور پھر ڈراتے بھی ہیں کہ آپ بولیں گے نہیں ورنہ آپ کو مار دیں گے یا آپ کے ماں باپ کو مار دیں گے، سب سے زیادہ یہ دھمکی دی جاتی ہے ۔ اتنا ڈر ہوتا ہے کہ آپ آگے سے کچھ کر ہی نہیں پاتے۔
اپنے ایک انٹرویو میں فریحہ الطاف نے بتایاکہ بچپن میں 1970ءکی بات ہے، میرے والدین چھٹیوں پر ایکسپو جاپان میں گئے ہوئے تھے۔ اس وقت ہمیں کزنز کے ساتھ چھوڑ کر گئے تھے ، ہم لوگ چار بہن بھائی ہیں اور میں سب سے بڑی ہوں، اس وقت میں چھ سے ساڑھے چھ سال کی تھی ، ہمارے گھر میں جو ملازم تھے ان میں ایک بنگالی کُک تھا، اس وقت بچوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا، والدین نے بھی کچھ نہیں بتایا تھا، اس نے اس وقت کا فائدہ اٹھایا، میرے ماں باپ بھی ملک سے باہر تھے اور جو کزنز تھے اتنے میچور نہیں تھے، یا اتنا علم نہیں تھا۔ اس شخص نے پھر میرے ساتھ جو کیا، اس وقت میں کہنا نہیں چاہوں گی، ماں باپ میرے دو ہفتے تک نہیں تھے تو یہ چیز جاری رہی اور جب وہ آ بھی گئے تو وہ اس وقت بہت بولڈ ہوگیا تھا اور یہ چیز جاری رہی۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ امی کی واپسی کے بعد نامعلوم میرے میں کہاں سے ہمت آئی، میں نے جا کر امی کو بتا دیا، میرے ماں باپ تو ایجوکیٹڈ لوگ ہیں، تو انہوں نے فوراً توجہ دی اور اسے پولیس کے حوالے کروادیا۔ اسے پولیس کے حوالے کروانے سے یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے ہمسائے میں ایک بنگالی کُک تھا تو وہ ان کی بچی کے ساتھ بھی یہی حرکت کررہا تھا، وہ بھی پکڑا گیا اور پھر اس کو انہوں نے ڈی پورٹ کروادیا، اس وقت سمجھ مجھے بھی نہیں آئی اور نہ مجھے سمجھایا گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے، صرف یہ پتہ تھا کہ برا ہورہا ہے، اور میں اس سے تو بچ گئی۔
اداکارہ کاکہناتھاکہ یہ بات کی نہیں جاتی، مجھے بھی یہی بولا گیا کہ اس کے بارے میں آپ نے چپ رہنا ہے، سوسائٹی اور خاندان کی عزت کا سوال ہے ، میری امی کو نروس بریک ڈاﺅن ہوگیا اس قصے کے بعد کیونکہ وہ ہینڈل نہیں کرپائیں لیکن ان کا جو نروس بریک ڈاﺅن بھی ہے اس کو بھی سمجھا جاتا ہے کہ اس کو بھی چھپانا ہے خاندان سے باہر بات نہ جائے، یہ بہت امپورٹنٹ ہے۔
ان کاکہناتھاکہ اس قصے کی 28 سال تک بات نہیں کی اور چپ رہے ، جب میں کینیڈا گئی اور میری شادی ہوئی اور میری شادی کامیاب نہیں ہوئی اور اس شادی میں پانچ سال کی میرج تھی، میرے دو بچے تھے ، بہت زیادہ تکلیف میں تھی ، میری زندگی کافی انسٹیبل تھی تو مجھے محسوس ہوا اور جب میں نے کاﺅنسلنگ کی تو مجھے اس وقت تک سمجھ آگئی تھی کہ یہ سارا کچھ اور جو میری ذاتی زندگی خراب ہے اور جو میں خاوند کے ساتھ برداشت کررہی ہوں، اتنی باہمت خاتون ہوں اور اتنی کامیاب ہوں ، میری پرسنل لائف خراب ہے۔ میرے ساتھ میرے خاوند کی جس طرح کی حرکتیں تھیں، میں کاﺅنسلنگ کے لیے گئی اور انہوں نے کہا کہ آپ کو بات سمجھ آگئی ہے کہ تو آپ کو کاﺅنسلنگ کی ضرورت نہیں، اس وقت جب میں34 سال کی تھی تو یہ بات واپس باہر نکلی، مجھے احساس ہوا کہ میری زندگی میں انسٹیبلٹی تھی وہ کہاں سے آرہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کا جو کچھ بھی بچپن میں ہوتا ہے، وہ سارا آپ کی زندگی کو اثرانداز کرتا ہے، پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس چیز کو ایڈریس نہیں کرتے، اس وقت میری بہن مجھ سے چھوٹی تھی، اس نے بھی مجھ سے بات نہیں کی تھی کیونکہ ہم سب چپ بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت میرے والد کی وفات ہوچکی تھی اور میں نے اپنی امی سے بات کی کہ اس چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ،آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ اگر میری طلاق ہورہی ہے، میری ریلیشن شپ ٹھیک نہیں ہے، یا اگر مجھ میں بہت زیادہ غصہ ہے تو یہ سارا کچھ کہیں اور سے نکل کرآرہا ہے، میری اپنی کوئی سیلف رسپیکٹ نہیں ، میں اپنے آپ کو ڈری سمجھتی ہوں، میں سمجھتی ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی غلط حرکت کررہا ہے تو میں یہ ڈیزرو کرتی ہوں کیونکہ یہ ساری چیزیں بچپن کے قصے کی وجہ سےمیرے ساتھ جوڑ چکی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان چیزوں کے بارے میں ہماری سوسائٹی میں کوئی بات نہیں کرتا، اس وقت سے یہ چیز میرے دماغ میں تھی ، اس قصے نے اتنا ایفیکٹ کیا ، اس کے بعد میں نے بات کرنا شروع کی۔میں نے اپنی قریبی دوستوں سے باتیں کرنا شروع کردی تھیں، اس کے بعد مجھے پتہ چلنا شروع ہوا کہ سب کے ساتھ یہ ہورہا ہے اور میں اتنی سرپرائز ہوگئی کہ یہ پاکستان میں اتنا زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کہتے ہیں کہ غریبوں میں یہ زیادہ ہوتا ہے لیکن یہ اتنا زیادہ ایلیٹ سوسائٹی میں بھی ہوتا ہے۔
ملازمین کے بارے میں سوال پر فریحہ الطاف نے بتایا کہ ملازمین سے زیادہ رشتہ دار، سب سے زیادہ جو آپ کے سب سے قریب ہوتے ہیں، جن سے بھی میں نے بات کی ہے اور وہی جن پر آپ ٹرسٹ کرتے ہیں، آپ کے مولوی صاحب، آپ کے نوکر، آپ کے کزنز اور سوتیلے باپ، اس طرح کے جو لوگ ہیں جو آپ کے اردگرد گھوم رہے ہوتے ہیں ، جن کو آپ ٹرسٹ کرتے ہو، ان سے سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے،ان کا کہنا تھا کہ میں تو خوش قسمت تھی کہ میرے ماں باپ نے میری بات سن لی اور میرا یقین کر لیا، کیونکہ امی کے ساتھ میری ریلیشن شپ بہت اچھی تھی، ابو سے بہت ڈر لگتا تھا۔ یہ بھی ایک پرابلم ہے کہ ہم اپنے ماں باپ سے اتنا ڈرتے ہیں کہ آگے سے بات نہ کرو، آپ بول ہی نہیں پاتے، اس وقت میں بالکل ہی ڈری ہوئی تھی اور پھر ڈراتے بھی ہیں کہ آپ بولیں گے نہیں ورنہ آپ کو مار دیں گے یا آپ کے ماں باپ کو مار دیں گے، سب سے زیادہ یہ دھمکی دی جاتی ہے ۔ اتنا ڈر ہوتا ہے کہ آپ آگے سے کچھ کر ہی نہیں پاتے۔