دنیا بھر کے ادب میں اولیت ان لکھاریوں کو دی جاتی ہے جن کا قلم تحقیق، تجربے اور تجسس کو دعوت دیتا ہو جس سے انسان کی ذہنی نشو و نما اور فکری بالیدگی کو جلا مل سکے لیکن قیام پاکستان کے بعد کے اردو ادب کی جانب نگاہ دوڑائی جائے تو چند ایک شعراء کے علاوہ تمام لکھنے والے بالخصوص نثر لکھنے والے ایک محدود نظریے پر لکھتے نظر آتے ہیں جن کی تمام تر سوچ صرف مذہب کے گرد طواف کرتی محسوس ہوتی ہے اردو نثری مضامین لکھنے والوں پر مذہب کی چھاپ نمایاں ہے۔
یہاں کسی مذہب سے اختلاف کرنا مقصود نہیں البتہ یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ لکھنے والے کو اپنے نظریات حقائق اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر بیان کرنے چاہئیں جبکہ اردو لکھنے والوں کا جائزہ لیں تو خواہ وہ قدرت اللہ شہاب کے قصے ہوں جو پڑھنے والے کو من گھڑت معلوم ہوتے ہیں یا اشفاق احمد کے بابے ہوں جن کا حقیقی دنیا سے تعلق کسی بھی نارمل پڑھنے والے کو ایک مذاق لگتا ہے سب کے سب خیالی قصوں، کہانیوں پر مشتمل نظر آتے ہیں اور جن کا لب لباب آخر میں تحریر کو مذہب سے جوڑ کر اسے روحانی شکل عطا کرنا ہوتا ہے کیونکہ روحانیت ہی وہ واحد لبادہ ہے جس میں ہر طرح کا خام مال لپیٹ کر پاکستان میں بیچا جا سکتا ہے اب ایسی صورت میں جب تحریر کو مذہبی رنگ دیدیا گیا ہو کون مائی کا لال اختلاف کی جرات کر سکتا ہے۔ کون کھڑے ہو کر کہہ سکتا ہے کہ آپ کا فکشن سر آنکھوں پر مگر خدارا اپنے فکشن کو روحانیت عطا کر کے ذہنوں کو مزید پراگندہ نہ کریں۔
اردو پڑھنے والوں کا ایک بڑا حصہ اردو ڈائجسٹ پڑھتا ہے تو اس صنف میں بھی کم اندھیر نہیں مچائی گئی۔ جاسوسی ڈائجسٹ وغیرہ میں تو زیادہ تر دنیا بھر کے جاسوسی ناولز کے تراجم شائع کیے جاتے ہیں البتہ خواتین کے اردو رسالوں میں ایسے شاہکار بوگس ناولز موجود ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں۔ جن کو لکھنے والوں نے ایک ایسے فارمولے کے ساتھ لکھا ہے جس میں عقل، تحقیق کا تو تصور ہی نہیں البتہ بے جا رومانوی مناظر اور روحانیت کا تڑکا لگا کر تحریر کو جاذب نظر بنایا جاتا ہے۔
ان لکھنے والوں میں عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کا نام سر فہرست ہے جن کی کہانی کئی بار پڑھنے کے باوجود بھی کوئی صورت اختیار کرنے میں ہر بار ناکام رہتی ہے لیکن رومان اور مذہب کے امتزاج کے باعث سادہ لوح عوام کو چسکا فراہم کر کے شہرت حاصل کر لیتی ہے۔ اسی پر بس نہیں آگے جا کہ یہی تنگ ذہن، تن آسان لکھنے والے ڈرامے کے لئے بھی لکھتے نظر آتے ہیں۔ کمرشل ازم جو کہ پہلے ہی حد سے بڑھا ہوا تھا ٹیلی ویژن میں آکر مزید دو چند ہوجاتا ہے۔
سطحی پن، ناقص علم بالآخر گھٹیا پن پر اتر آتا ہے اور خلیل الرحمٰن قمر جیسے سستے ڈرامہ نگار پیدا ہو جاتے ہیں۔ جنھیں پیشہ ورانہ اور ذاتی طور پر گھٹیا جملے بولنے کے فن پر عبور حاصل ہے اور چونکہ یہی سستا پن عوام کو بھاتا ہے اس لیے الیکٹرانک میڈیا ایسے سستے ڈرامہ لکھنے والے کو اردو فلاسفر کا درجہ دے دیتا ہے۔ اردو ادب کے اس تنزلی کے سفر میں شریک تمام لکھنے والوں میں ایک ہی قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ اپنی ناقص صلاحیتوں کو وہ مذہب کے لبادے میں لپیٹنا اچھی طرح جانتے ہیں۔
عوام کو سوچنے کہ ضرورت ہے کیوں یہ تن آسان لکھنے والے منٹو کی طرح فاقہ کشی نہیں کرتے، کیوں جیلیں نہیں کاٹتے؟ کیوں ان کا قلم معاشرے سے لڑ کر اس میں سدھار پیدا کرنے کے بجائے اخلاقی گراوٹ پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے؟ کیوں اردو ادب میں تحقیق اور فکری مطالعے کے لائق لٹریچر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا؟ سوچیں، کھل کے سوچیں، ہر فکر اور زنجیر سے آزاد ہوکر سوچیں اور پھر قلم اٹھائیں تاکہ ادب کے اور روحانیت کے نام پر کمرشل ازم کا دھندا بند ہو سکے۔