خواتین و حضرات!
کیا آپ کبھی کسی ایسے شاعر سے ملے ہیں جو صاحب دیوان بھی ہو، دانا بھی ہو اور دیوانہ بھی؟ میں اپنی زندگی میں تین ایسے شعرا سے مل چکا ہوں۔
پہلے صاحب دیوان، دانا اور دیوانہ شاعر منیر نیازی تھے۔ میں لاہور میں ان کے گھر ان سے ملنے گیا تو وہ ایک عالم بے خودی میں مسلسل ایک گھنٹہ گفتگو کرتے رہے۔ وہ گفتگو مونولاگ زیادہ اور ڈائلاگ کم تھی۔ گھر آ کر میں نے ان کا مونولاگ لکھ لیا جو نہایت دلچسپ اور معنی خیز تھا۔ اس مونولاگ میں ان کی دانائی اور دیوانگی دونوں عیاں تھے۔ اسی لیے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے اپنا یہ شعر سنایا
؎ مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں سب سے تھا
میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا
دوسرے صاحب دیوان، دانا اور دیوانہ شاعر جون ایلیا تھے۔ وہ ٹورانٹو کے ایک مشاعرے میں بڑے تپاک سے ملے، مجھے گلے لگایا اور اپنے لمبے لمبے بال جھٹک کر کہنے لگے، مجھے کسی شراب خانے لے چلو پینے کو جی چاہ رہا ہے۔ ، مے خانے میں وہ مے پیتے رہے، دلچسپ گفتگو کرتے رہے اور شعر سناتے رہے۔ ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔
؎ حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں
اپنی زندگی میں جو تیسرا صاحب دیوان، دانا اور دیوانہ شاعر ملا وہ افضال نوید تھا۔ میری افضال نوید سے جب بھی ملاقات ہوئی وہ محبت میں سرشار ملا۔ کھویا کھویا سا۔ الجھا الجھا سا۔ لڑکھڑاتا ہوا۔ ڈگمگاتا ہوا۔ مسکراتا ہوا۔ میں جب بھی افضال نوید سے ملا مجھے یوں لگا جیسے اس کا ایک پاؤں شعور اور دوسرا پاؤں لاشعور میں ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس کا وجود مکاں میں ہے یا لامکاں میں۔
میں افضال نوید کی شاعری کا مداح ہوں کیونکہ
وہ اردو غزل کے راز جانتا ہے
وہ لفظوں کے مزاج سے واقف ہے
وہ انسانی نفسیات کی گتھیوں سے کھیلتا ہے۔ کبھی الجھاتا ہے، کبھی سلجھاتا ہے۔ وہ مصرعوں سے اٹکھیلیاں کرتا ہے۔ اس کے کلام میں الفاظ یوں رقص کرتے ہیں جیسے درویش محفل سماع میں رقص کرتے کرتے، حال، میں آ جاتے ہیں۔
افضال کی غزلیں سن کر عوام و خواص محظوظ بھی ہوتے اور مسحور بھی۔ وہ اپنے الفاظ سے ایک سماں باندھ دیتا ہے۔ وہ خود بھی وجد میں آ جاتا ہے اور سامعین کو بھی وجد میں لے آتا ہے۔ ملاحظہ ہو
؎ تیرا درشن عجیب درشن تھا
چار سو اک چراغ روشن تھا
رات نکلی تھی ڈگمگاتی ہوئی
سر پہ مٹی کا ایک برتن تھا
ساون آیا مگر نہ آیا وہ
وہ جو تیری گلی کا ساون تھا
بعض دفعہ یوں لگتا ہے جیسے افضال نوید شراب و شباب کے نشے میں مدہوش ہو جسے وہ زندگی کے کسی مے خانے سے ابھی ابھی لوٹا ہو۔ اسی لیے وہ اقرار اور اعتراف کرتا ہے
؎ مے بھری تھی مرے بدن میں نویدؔ
یعنی آتش کدے میں ایندھن تھا۔
افضال نوید کی دیوانگی میں بھی دانائی ہے۔ وہ انسانی نفسیات کی بصیرتوں سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ انسانی ذات تضادات سے بھرپور ہے اسی لیے اس کی شخصیت میں ایک دوئی ہے جو اس کے لیے بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اس دوئی کا بھرپور اظہار افضال نوید کی اس غزل میں ہوا ہے
؎ یک رنگی رسوم سے دل جوڑنا بھی ہے
اندر کا قفل زنگ زدہ توڑنا بھی ہے
تعمیر کر کے دیکھنا ہے اپنے آپ کو
اور اس نگاہ سے کہ اسے چھوڑنا بھی ہے
اکثر تو ناز اٹھانا ہے اپنے وجود کا
لیکن کبھی کبھی اسے جھنجھوڑنا بھی ہے
افضال نوید کی شاعری میں دانائی کے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ انسان جتنا موجود ہے اتنا ہی نابود ہے وہ جتنا مکاں میں ہے اتنا ہی لامکاں میں ہے جتنا شعور میں ہے اتنا ہی لاشعور میں ہے۔ کسی صوفی شاعر کا شعر ہے۔ ۔ ۔ ؎ جہاں ہونا نہ ہونا ہے۔ ۔ ۔ نہ ہونا عین ہونا ہے
افضال نوید لکھتا ہے
؎ سر میں لے کے چلتا تھا، میں مکاں کی وحشت کو
میرے پاؤں کے نیچے، لامکاں لرزتا تھا
؎ شہر موجود دھواں ہے میرے بجھنے سے نوید
شہر نابود میں رہتا ہے اجالا میرا
افضال نوید کے مزاج کی دیوانگی اس کی شاعری کے لیے امرت مگر اس کے دوستوں اور خاندان والوں کے لیے زہر ہو سکتی ہے۔ وہ انہیں آزمائش میں ڈال سکتی ہے۔ افضال نوید کی mercurial personality کی متلون مزاجی حالات و واقعات کو غیر یقینی بنا دیتی ہے۔ آپ اس کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتے اور اسے تنہا بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ نجانے کس وقت کس جگہ کس موقعہ پر کیا ہو جائے۔ ایک ماہر نفسیات ہونے کے ناتے میں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں
؎ دیوانے کے ہمراہ بھی رہنا ہے قیامت
دیوانے کو تنہا بھی تو چھوڑا نہیں جاتا
افضال نوید چونکہ دانا دیوانہ شاعر ہے اس لیے وہ خود اعتراف کرتا ہے
؎ کہتے ہیں لوگ اس کے سر میں فتور ہے
لیکن نوید میں تو سراپا فتور ہوں
افضال نوید کے مزاج کی دیوانگی میں الحاد کی وحشت بھی شامل ہے۔ وہ روایتی مذہب سے دل گرفتہ اور روایتی خدا سے دل برداشتہ ہو چکا ہے لیکن اس کا الحاد دیگر ملحدوں سے مختلف ہے۔ اس کے الحاد میں غصہ، نفرت، تلخی کی بجائے ایک بے نیازی ہے، ایک وارفتگی ہے، ایک دلفریبی ہے کیونکہ وہ روایتی مذہب کے حصار سے باہر نکل کر اپنے سچ اور اپنی صداقت کی تلاش میں ہے۔ اس کا الحاد اتنا پر خلوص ہے کہ وہ دلفریب، دلکش، دلنشیں اور دلفگار بن گیا ہے۔ اس کے الحاد سے خدا بھی خوش ہے۔ افضال نوید لکھتا ہے
؎ نابود میں میرے بت برباد سے مل کر
چلتی ہے ہوا ہست کی ہمزاد سے مل کر
کیا جانے کس انداز کی وحشت نظر آئی
معبود ہوا خوش میرے الحاد سے مل کر
افضال کا الحاد سچا بھی ہے اور سچا ہے۔ وہ روایتی مذہب کا پرچار کرنے والوں کی منافقت سے بہت دور ہے۔ وہ ان مفتیوں، پادریوں، مولویوں اور پنڈتوں کی طرح نہیں جو اپنی انا، دولت، شہرت اور شہوت کے لیے اپنے خدا کو بھی بیچ آتے ہیں۔ افضال نوید کہتا ہے
؎ کھل گئی ہوگی دکاں شہر میں ہر معبد کی
اور معبود کی بازار میں بولی ہوگی
اسی لیے افضال کے دل میں کبھی مسجد یا گرجے یا مندر یا سیناگاگ جانے کا خیال نہیں آیا۔ اس کا شعر ہے
؎ ایسا خیال بھی کبھی آیا نہیں نویدؔ
کعبے کا رخ کریں یا کلیسا کو جائیں ہم
اردو زبان نے ساری دنیا میں سینکڑوں ہزاروں شاعر پیدا کیے ہیں لیکن ان میں سے اکثر روایتی شاعر ہیں جو گل و بلبل کی کلیشے کی شاعری کرتے ہیں۔ اگر آپ ان کے اشعار خلط ملط کر دیں تو سب کے شعر ایک جیسے لگتے ہیں۔ افضال نوید ان چند شاعروں میں سے ایک ہے جو صاحب طرز شاعر ہے۔ افضال نوید کا انداز فکر بھی جداگانہ ہے انداز اظہار بھی۔ اس کے اسلوب نے کسی اور کے اسلوب کی خوشہ چینی نہیں کی۔ اس کے اشعار کو آپ دور سے سن کر پہچان سکتے ہیں کیونکہ ان میں ایک جداگانہ خوشبو رچی بسی ہوتی ہے۔ جانے سے پہلے میں آپ کو اس جداگانہ خوشبو کے اشعار سناتا چلوں جو کافی دیر تک آپ کی روح کی گہرائیوں اور آپ کی ذات کے گنبد بے در میں گونجتے رہیں گے اور آپ کو مسحور و محظوظ کرتے رہیں گے۔
؎ ہوا کا ہاتھ ترے در پہ پڑ گیا ہوگا
اور اس گلی میں کوئی پھول جھڑ گیا ہوگا
رکا تو ہوگا وہ بارش کے گیت کو سن کر
پھر اس کو کوئی اور کام پڑ گیا ہوگا
؎ کسی سحر کا کسی شام کا نہیں رہتا
جو تیرا ہو وہ کسی کام کا نہیں رہتا
شب فراق تجھے ایک بار پھر کہہ دوں
یہاں پہ کوئی مرے نام کا نہیں رہتا
خواتین و حضرات!
مجھے افضال نوید کی شاعری بہت پسند ہے۔ مجھے اس کی دانائی بھی عزیز ہے اور اس کی دیوانگی بھی کیونکہ اس کی آنکھ میں ایک بچے کی حیرت، اس کے ذہن میں ایک فلسفی کی فراست اور اس کی شخصیت میں ایک درویش کی بصیرت بسی ہوئی ہے۔
یہ ہمارے شہر کی خوش بختی ہے کہ یہ صاحب دیوان، دانا اور دیوانہ شاعر ٹورانٹو میں رہتا ہے۔