پاکستان میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سرکاری نگرانی اور پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہے اور حاضر اور ماضی کی حکومتوں نے مختلف مواقعوں پر اس بارے میں بیانات دیے اور اقدامات اٹھائے ہیں۔
شاید یہی وجہ تھی جب اتوار کی شب دس بجے کے بعد ٹوئٹر پر کچھ صارفین نے تبصرہ کیا کہ انھیں ٹوئٹر تک رسائی حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، تو لوگوں کے ذہنوں میں سوالات بھی ساتھ ساتھ پیدا ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
‘ٹوئٹر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہے؟’
صارف ہدا نوید نے پوچھا کہ کیا کسی اور کو بھی ٹوئٹر استعمال کرنے میں مشکلات ہو رہی ہیں اور بتایا کہ وہ پی ٹی سی ایل کا انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہیں۔
ایک اور صارف ماریہ نے ٹوئٹر سے شکایت کی کہ یہ کیا طریقہ ہے، آپ کی طبیعت کیوں خراب ہے۔
پھر تو صارفین کی شکایتوں کا تانتا ہی بندھ گیا جنھیں ٹوئٹر استعمال کرنے میں دقت ہو رہی تھی اور بہت جلد پاکستانی ٹوئٹر پر #Twitterdown اور #TwitterdownPakistan ٹرینڈ کرنے لگے۔
اسی حوالے سے محقق اور عوامی ورکرز پارٹی کے سرگرم رہنما عمار رشید نے بھی ٹویٹ کی کہ کیا اب پاکستان میں ٹوئٹر کام کر رہا ہے، اور ہوا کیا ہے۔
انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ چند لوگ کو وی پی این (یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک) کے ذریعے ٹوئٹر پر رسائی ہو رہی ہے اور یہ بہت عجیب بات ہے۔
https://twitter.com/AmmarRashidT/status/1262092402677948416
انھیں جواب دیتے ہوئے ایک اور صارف ہالا ملک نے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس کی جانچ کرنے والی ایک ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ دشواری صرف پاکستان میں صارفین کو آ رہی ہے۔
چند صارفین نے اس موقع پر بتایا کہ وہ نہ صرف ٹوئٹر تک رسائی حاصل کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ویڈیو کانفرنس کرنے والی ایپ زوم بھی نہیں چل رہا۔
ڈان اخبار سے منسلک صحافی ریم خورشید نے لکھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ بندش شاید ‘ساتھ فورم’ کی ورچوئل کانفرنس کی وجہ سے ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو یہ قدم سودمند نہیں تھا کیونکہ اب مجھے اس کانفرنس کے بارے میں معلوم ہو گیا ہے۔
ایک اور صارف نیٹ سیک جیف نے اسی بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ ‘ٹوئٹر، پیری سکوپ اور زوم بند ہیں۔ اور یہی وہ پلیٹ فارم ہیں جو وہ بائیں بازو والے اراکین اپنی کانفرنس کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔’
‘آن لائن سینسر شپ ناقابل قبول ہے’
کچھ دیر بعد انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس تک رسائی میں دشواری اور پابندیوں کا جائزہ لینے والے ادارے نیٹ بلاکس نے اپنی ٹویٹ میں تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ‘ پاکستان بھر میں ٹوئٹر اور پیری سکوپ تک رسائی حاصل کرنے میں دخل اندازی دیکھی گئی ہے جو کہ ابھی بھی جاری ہے۔’
اس ٹویٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق یہ نظر آیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سروس فراہم کرنے والے مختلف ادارے (آئی ایس پی) ٹوئٹر کی ویب سائٹ اور ایپ تک رسائی نہیں دے پا رہے تھے۔
https://twitter.com/netblocks/status/1262102710901518347
نیٹ بلاکس کی ٹویٹ پر صارفین نے مزید سوالات کیے کہ کیا یہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر بندش کا ثبوت تو نہیں ہے۔
انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے اسامہ خلجی نے پاکستان میں انٹرنیٹ کے نگراں ادارے پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی وزرا شیریں مزاری اور شبلی فراز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی پریشان کن بات ہے اور پی ٹی فوری طور پر تصدیق کرے کہ یہ معاملہ کیا ہے۔
اسامہ نے وفاقی کابینہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بھی اس بندش کا نوٹس لے اور آن لائن سینسر شپ قطعی ناقابل قبول ہیں۔
تاہم رات گئے نیٹ بلاکس نے قریب دو بجے ٹویٹ میں تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ‘پاکستان میں ٹوئٹر تک رسائی دوبارہ ممکن ہو گئی ہے تاہم تحقیق کے دوران یہ نظر آیا کہ ٹوئٹر اور زوم دونوں تک رسائی نہیں ہو رہی تھی۔’
حال ہی میں ٹوئٹر کے ‘اوور سائٹ بورڈ’ کی رکن منتخب ہونے والی اور ڈیجیٹل رائٹس کی سرگرم کارکن نگہت داد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مختلف آئی ایس پیز کا ڈیٹا دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں ٹوئٹر اور زوم تک رسائی تقریباً ایک ساتھ بند ہوئی، اور ایک ہی وقت پر واپس شروع ہوگئی۔
‘ماضی میں سینسرشپ کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ کوئی تکنیکی خرابی نہیں تھی بلکہ شاید سینسر شپ کی مثال تھی۔’
نگہت داد نے مزید کہا کہ پی ٹی اے اور دیگر سرکاری حکام پر لازم ہے کہ وہ اس بندش کی وضاحت کریں اور شفافیت کے مظاہرہ کرتے ہوئے بتائیں کہ یہ کیا ہوا تھا کیونکہ یہ شکایت صرف پاکستان میں صارفین کو درپیش ہوئی تھی، نہ کہ دنیا بھر میں۔
انھوں نے کہا کہ ‘یہ کوئی منٹ، دس منٹ کی بندش نہیں تھی بلکہ یہ تقریباً دو گھنٹے جاری رہی’
اسی حوالے سے جب بی بی سی نے اسلام آباد میں آئی ایس پی ‘نیا ٹیل’ میں ذرائع سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر تک رسائی بند ہے لیکن اس کے لیے ان کے ادارے کے پاس بند کرنے کے لیے کوئی احکامات نہیں موصول ہوئے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں کسی ویب سائٹ کی بندش صرف ‘ انٹرنیٹ گیٹ وے’ سے ہو سکتی ہے، جو کہ پاکستان کا عالمی مواصلاتی نظام سے رابطے کا ذریعہ ہے اور وہ سرکاری نگرانی میں ہے۔
بی بی سی نے اس حوالے سے پی ٹی اے کے ترجمان سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا اور چند سوالات بھیجے تاہم اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ماضی میں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی پر پابندی
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب پاکستان میں کسی ویب سائٹ یا انٹرنیٹ سروس تک رسائی بند کی گئی ہو۔
گذشتہ سال نیٹ بلاکس کی جانب سے کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اگست اور ستمبر کے مہینے میں انٹرنیٹ تک رسائی مختلف مواقعوں پر بند کر دی گئی تھی۔
اس سے قبل 2018 میں بھی ایسے ہی واقعات دیکھنے میں آئے تھے جیسے سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کی ویب سائٹ کا بند ہوجانا۔
سنہ 2017 میں نومبر کے مہینے میں ٹیلی کام اداروں کی جانب سے پاکستان کے مختلف شہروں میں سوشل میڈیا جیسے ٹوئٹر اور فیس بک پر جزوقتی پابندی دیکھنے میں آئی تھی۔