بچوں کی پورن فلمیں بیرون ملک بیچنے والے پاکستانی شہری کی ضمانت پر رہائی کا حکم

پاکستان کے شہر لاہور کی ہائی کورٹ نے بچوں کی پورنوگرافک فلمیں بیرونِ ملک بیچنے کے الزام میں سزا پانے والے ایک شخص کی سزا معطل کر کے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ملزم کو ضمانت کے عوض دو لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا کہا گیا ہے۔

سعادت امین نامی ملزم کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے سنہ 2017 میں پنجاب کے شہر سرگودھا سے گرفتار کیا تھا اور سنہ 2018 میں لاہور کی سائبر کرائمز سے متعلق عدالت نے انہیں سات برس قید اور 12 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سعادت امین کی گرفتاری ناروے کی پولیس کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کی بنا پر عمل میں لائی گئی تھی۔ ملزم کے قبضے سے ایک ہزار گیگا بائٹ کی ہارڈ ڈسک برآمد ہوئی تھی جس پر ایف آئی اے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں بچوں کی پورنوگرافک فلمیں اور تصاویر موجود تھیں۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر آصف اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ سعادت امین بچوں کی پورنوگرافک فلمیں ناروے، سویڈن اور برطانیہ سمیت دوسرے ممالک میں فروخت کر کے لاکھوں روپے کما چکا تھا۔ ان کا کہنا تھا ملزم کو موصول ہونے والی رقوم کے شواہد بھی اکٹھے کیے گئے تھے۔

آصف اقبال کے مطابق سعادت امین کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی تھی جب سویڈن کے ایک شہری جیمز لنڈسٹارم کو ناروے میں بچوں کی پورنوگرافک فلمیں رکھنے اور بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

چائلڈ پورنوگرافی پر پاکستان میں پہلا اور تاریخی فیصلہ

’پورنوگرافک فلموں پر ایک ملک سے لاکھوں روپے کمائے‘

بچوں کی پورنوگرافک فلمیں، سرگودھا کا شہری گرفتار

سائبر کرائم قوانین کی کمزوریاں

‘اس نے حکام کو بتایا کہ وہ یہ فلمیں پاکستانی شہری سعادت امین سے خریدتا تھا اور اس کے عوض اسے بھاری رقوم ویسٹرن یونین اور منی گرام کے ذریعے بھجوا چکا تھا۔’

تاہم لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران سعادت امین کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ماتحت عدالت نے انہیں ثبوت اور شواہد ناکافی ہونے کے باوجود سزا سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ سزا کے خلاف ملزم کی لاہور ہائی کورٹ میں سنہ 2018 میں دائر کی گئی درخواست پر تاحال کارروائی شروع نہیں ہو پائی تھی۔

انہوں نے عدالت سے سعادت امین کو ضمانت پر رہا کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ سات برس قید میں سے تین برس وہ جیل میں گزار چکے تھے۔

تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل منعم بشیر چوہدری جو ملزم کو ماتحت عدالت سے سزا دلوانے میں بھی استغاثہ کے وکیل تھے، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ‘سعادت امین کو ٹرائل کورٹ نے حقائق کے عین مطابق اور ثبوتوں کی روشنی میں سزا سنائی تھی۔’ تاہم لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کی ضمانت کی استعدعا منظور کرتے ہوئے دو لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض رہائی کا حکم دیا۔

پاکستان

Getty Images
ایف آئی اے کے مطابق سعادت امین اس کاروبار میں 2007 سے ملوث تھا (فائل فوٹو)

ایف آئی اے نے کیا ثبوت اکٹھے کیے تھے؟

واقعہ کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ سعادت امین بچوں کی پورنوگرافک فلمیں روس اور بنگلہ دیش سے کام کرنے والی ایسی ویب سائٹس سے چوری کرتا تھا جن تک رسائی صرف پیسوں سے خریدی جا سکتی ہے۔

وہ انھیں پیسوں کے عوض ناروے میں جیمز لنڈسٹورم نامی شخص کو بیچتا تھا۔ آئی اے حکام کے مطابق سعادت امین کے قبضے سے ایک ٹیرا بائیٹ یعنی ایک ہزار جی بی کی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو برآمد ہوئی ہے۔

اس ڈسک پر ہزاروں کی تعداد میں بچوں کی پورنوگرافک ویڈیوز اور تصاویر موجود تھیں۔ اس کے قبضے سے مقامی بچوں کی کچھ ایسی تصویریں اور فلمیں ملیں تھیں جو برہنہ حالت میں لی گئیں تھیں۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کے مطابق پیسوں کا لین دین کرنے والے بین الاقوامی ادارے ویسٹرن یونین کی طرف سے موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق سعادت امین نے 2007 سے لے کر گرفتاری سے قبل تک یورپی ملک سویڈن سے کم از کم 38 لاکھ پاکستانی روپے وصول کیے تھے۔

دورانِ تفتیش ملزم نے بتایا تھا کہ یہ رقم ان کو سویڈن میں بچوں کی پورنوگرافک فلمیں اور فحش تصویریں خریدنے والے ایک شخص جیمز لنڈسٹورم نے بھیجی تھی جس سے سعادت امین کے روابط تھے۔

کیا یہ ثبوت ملزم کو سزا دلوانے کے لیے کافی تھے؟

جیمز لنڈسٹورم نامی شخص کو ان کی گرفتاری سے ایک سال قبل ناروے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سعادت امین کو پاکستان میں ناروے کے سفارتخانے کی جانب سے پاکستان کی وزارتِ داخلہ کو مہیا کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر آصف اقبال نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس مقدمہ میں ان کے پاس اس قدر ثبوت موجود تھے جو ملزم کو سزا دلوانے کے لیے کافی ثابت ہوئے۔ تاہم الیکٹرانک کرائمز کے حوالے سے اکٹھے کیے جانے والے ثبوت روایتی قوانین کے احاطے میں نہیں آتے۔

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ڈیجیٹل ایویڈینس کے حوالے سے بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کی تعریف قانون میں واضح طور پر دی ہونی چاہیے۔

‘جیسے آئی پی ایڈریس ایک ایسی چیز ہے جسے آپ بگاڑ نہیں سکتے یا تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارے پاس ایک بہت مستند ثبوت ہوتا ہے تاہم ہمارے لیے عدالت میں اس کی صداقت ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس جب وہ کوئی ڈیوائس یا آلہ قبضے میں لیتے ہیں تو اس کی فرانزک رپورٹ کو عدالت مان لیتی ہے۔

سائبر کرائم کے ماہرین کا استدلال ہے کہ پاکستان میں رائج سائبر کرائم کے قوانین میں مسلسل بہتری کی ضرورت ہے تا کہ ملزم قانون میں موجود کسی کمزوری کا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔

آصف اقبال نے بتایا تھا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے بعد چائلڈ پورنوگرافی کو سب سے گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس مقدمہ میں وہ گواہان بھی عدالت میں پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

اپنے فیصلے میں ماتحت عدالت نے لکھا تھا کہ چائلڈ پورن ایک ایسا مکروہ فعل ہے جس سے معاشرے پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ پورنوگرافک مواد کو حاصل کرنے کے دوران بچوں کو ناقابلِ تصور درندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایف آئی اے کے تفتیشی افسر آصف اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا نوٹس لیتے ہوئے استغاثہ کو سنیچر کے روز طلب کر رکھا ہے۔