این ایچ آر سی نے مرکز اور ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ سیکس ورکرز کو ’غیر رسمی مزدور‘ تسلیم کریں۔ نیز کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ سیکس ورکرز کو دستاویزات دیے جائیں تاکہ انھیں راشن سمیت دیگر سرکاری فوائد مل سکیں۔
کمیشن نے معاشرے میں خطرناک صورت حال سے دو چار اور پسماندہ طبقات کے لوگوں پر کووڈ 19 کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور یہ پایا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
کمیشن نے کہا ہے کہ ان غیر رسمی مزدوروں کا اندراج ہونا چاہیے تاکہ انھیں ’مزدوروں کو حاصل فوائد‘ مل سکیں۔
یہ بھی پڑھیے
این ایچ آر سی ایک آئینی ادارہ ہے جس کی سربراہی انڈیا کی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کرتے ہیں۔
سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیموں کی فیڈریشن نیشنل نیٹ ورک آف سیکس ورکرز (این این ایس ڈبلیو) اسے ایک بڑا اور اہم قدم قرار دے رہی ہے۔
عارضی دستاویزات پر بھی راشن ملے گا
این این ایس ڈبلیو کی قانونی مشیر آرتی پائی نے کہا: ’لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سیکس ورکرز کا ذریعہ معاش ختم ہو گیا۔ بار بار یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ انھیں بطور مزدور رجسٹر کیا جائے تاکہ انھیں بے روزگار مزدور کے طور پر دیا جانے والا الاؤنس مل سکے۔ اس تناظر میں یہ ایک بڑا قدم ہے۔‘
این ایچ آر سی کی ایڈوائزری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومتیں سیکس ورکرز کو مدد اور ریلیف فراہم کرا سکتی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ریاست مہاراشٹر کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر دوسری ریاستیں بھی عمل پیرا ہو سکتی ہیں۔ مہاراشٹر کی وزارت برائے بہبود خواتین و اطفال نے سیکس ورکرز کو راشن فراہم کرنے کا فیصلہ جولائی میں کیا تھا۔
این ایچ آر سی نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کسی سیکس ورکر کے پاس راشن کارڈ یا آدھار کارڈ نہیں تو بھی انھیں عارضی دستاویزات کے ساتھ راشن ملنا چاہیے۔
سیکسں ورکرز کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش
آرتی پائی کہتی ہیں ’زیادہ تر سیکسں ورکر اپنے گھر بار چھوڑ دیتے ہیں اور ان کے پاس کوئی شناختی کارڈ نہیں ہوتا ہے۔ این ایچ آر سی نے کہا ہے کہ خواہ ان کے پاس دستاویزات نہ بھی ہوں تو بھی ان کی مدد کی جانی چاہیے۔ جس کا مقصد سیکسں ورکرز کے انسانی حقوق کو تسلیم کرنا ہے۔‘
این ایچ آر سی کی طرف سے سیکسں ورکرز کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں مزدوروں کے ایک وسیع دائرہ میں شامل کیا گیا ہے۔
اس میں مہاجر سیکس ورکرز کو مہاجر مزدوروں کی سکیموں اور فوائد میں شامل کرنا، پروٹیکشن افسروں کو پارٹنر یا کنبے کے افراد کی جانب سے گھریلو تشدد کی اطلاع پر عمل درآمد کرنے کے لیے متحرک کرنے، صابن، سینیٹائزر اور ماسک سمیت کووڈ 19 کی مفت جانچ اور علاج جیسے انتظامات شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے لیے صحت کی سہولیات کی فراہمی کی بات کہی گئی ہے تاکہ انھیں ایچ آئی وی اور جنسی طور پر ہونے والے دیگر انفیکشن سے بچایا جا سکے اور ان کے علاج کے انتظامات بھی اس میں شامل ہیں۔
بمبئی ہائی کورٹ کا اہم حکم
آرتی پائی مہاراشٹر حکومت کی مہم کی ایک خاص بات کا ذکر کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’اس میں سیکس اور سمگلنگ کی جانے والی لڑکیوں میں واضح فرق کیا گیا ہے۔ سیکس ورکر ایسی بالغ خواتین ہیں جو اپنی مرضی سے روزی روٹی کمانے کے لیے اس کاروبار میں ہیں۔ دوسری طرف سمگلنگ کا شکار لڑکیاں ہیں جن کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے اور زبردستی اس کاروبار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔‘
این ایچ آر سی کی ایڈوائزری ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب حال ہی میں بمبئی ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔
ہائی کورٹ کے جسٹس پرتھوی راج کے چوان نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ „قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو جسم فروشی کو مجرمانہ فعل سمجھے یا جسم فروشی میں ملوث ہونے کی وجہ سے کسی کو سزا دے۔‘
مہاراشٹر میں ’سنگرام‘ نامی ادارے کی جنرل سیکرٹری مینا سیشو کا کہنا ہے کہ ’ہماری لڑائی زبان کے استعمال پر ہے۔ قانون خود طوائف اور طوائف گیری جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ جسم فروشی یا طوائف غیر قانونی ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ سیکس ورکرز کے لیے ایک بڑی راحت ہے کیونکہ انھیں جیل یا جیل جیسے حالت میں رہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ سیکس ورکرز کو قربانی کا بکرا بنانے کا کام برسوں سے جاری ہے۔‘
کیا اگلا قدم جنسی کام کو قانونی حیثیت دینا ہو گا؟
سیشو کا کہنا ہے ’سیکس ورکز کے حقوق کی تحریک اس بارے میں بہت واضح ہے۔ جو اس کام کو غیر مجرمانہ فعل بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سیکس ورکر ہونا جرم نہیں لیکن اس کے ارد گرد کی تمام چیزیں مجرمانہ ہو چکی ہیں۔ ہم اس کو غیر مجرمانہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم اسے قانونی طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال کبھی نہیں ہو گی جب کوئی خاتون یہ کہے کہ کل مجھے اپنا لائسنس مل جائے گا اور میں ایک سیکس ورکر بن جاؤں گی۔‘