درویش کی زنبیل سے۔ سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر

 

درویش نے جب سچ کی تلاش کے سفر کا آغاز کیا تو اس کا ایمان تھا کہ دنیا میں صرف ایک ہی سچ ہے اور وہ سچ ازلی و ابدی و حتمی سچ ہے لیکن نصف صدی کے تجربے ’مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان اور اتنی ہی حقیقتیں ہیں جتنی آنکھیں۔ ہر انسان اپنی مخصوص نگاہوں سے دنیا کو دیکھتا ہے اور اپنے تجربے کی بنیاد پر اسے پرکھتا ہے۔ درویش نے اختلاف الرائے کے باوجود دوسروں کے سچ کا احترام کرنا سیکھا کیونکہ یہی احترام آدمیت کا راز اور انسان دوستی کی روایت ہے۔

درویش نے جب مختلف اقوام کے مختلف ادوار کی نابغہ روزگار شخصیتوں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا تو اس نے جانا کہ سچ تک پہنچنے کے چار راستے ہیں۔

سچ تک پہنچنے کا پہلا راستہ وجدان کا راستہ ہے جس پر ہر دور کے سنت ’سادھو اور صوفی چلتے ہیں۔ وہ اپنے تزکیہ نفس سے اس مقام تک پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ نروان اور عرفان ذات حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے سچ کو گلے لگا لیتے ہیں۔ یہ سچ ان کی زندگی کی تاریک راہوں میں دیے کا کام کرتا ہے۔

سچ تک پہنچنے کا دوسرا راستہ جمالیات کا راستہ ہے جس پر ہر دور کے ادیب اور شاعر ’فنکار و دانشور چلتے ہیں۔ وہ اپنی فنی ریاضت سے جان جاتے ہیں کہ جمالیات کا تعلق توازن سے ہے۔ چاہے وہ شاعر کا موزوں کلام ہویا رقاصہ کا رقص یا موسیقار کا نغمہ ان تمام فنون لطیفہ میں اس صنف کا مخصوص توازن پایا جاتا ہے۔ فنکار جانتے ہیں کہ

BEAUTY IS TRUTH AND TRUTH IS BEAUTY

حسن کا راز جاننے کے بعد جب فنکار فنون لطیفہ میں اس کا تخلیقی اظہار کرتے ہیں تو پھر ان سے عوام و خواص محظوظ و مسحور ہوتے ہیں۔

سچ تک پہنچنے کا تیسرا راستہ منطق کا ہے جس پر ہر دور کے سائنسدان چلتے ہیں چاہے وہ ماہرین طبیعات ہوں یا ماہرین بشریات ’چاہے وہ ماہرین نفسیات ہوں یا ماہرین سماجیات۔ یہ سب ماہرین قوانین فطرت کے راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جان لیتے ہیں تو اس سے عوام و خواص کی زندگیاں آسان بھی کرتے ہیں اور آرام دہ بھی۔

سچ تک پہنچنے کا چوتھا راستہ عوام کا ہے جو نہ تو صوفی ہوتے ہیں نہ شاعر ’نہ سائنسدان ہوتے ہیں نہ دانشور۔ وہ روزمرہ کے مسائل میں الجھے اپنے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کی آزمائشیں انہیں دانا بنا دیتی ہیں اور یہ دانائی دیومالائی ہوتی ہے اور folk wisdom کے نام سے جانی جاتی ہے۔

درویش نے اپنے مطالعے سے یہ بھی جانا کہ سچ کی تلاش میں نکلے جو مسافر مخلص ہوتے ہیں وہ چاہے صوفی ہوں یا سائنسدان ’شاعر ہوں یا دانشور وہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن وہ مسافر جو اپنی انا کے نشے میں مخمور ہوتے ہیں ان میں تکبر بھی ہوتا ہے نرگسیت بھی۔

درویش پر یہ بھی منکشف ہوا کہ علم کے خمیر میں تکبر ہے اس لیے بہت سے عالم اور دانشور متکبر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح فنون لطیفہ کے خمیر میں نرگسیت ہے اسی لیے بہت سے شاعر اور فنکار نرگسیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ درویش نے جانا کہ علم کے تکبر اور فنون لطیفہ کی نرگسیت کا ایک ہی توڑ ہے اور وہ درویشی ہے جو انسان میں عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے وہ ادیب اور شاعر ’فنکار اور دانشور جو درویش بھی ہوتے ہیں وہ منکسر المزاج ہوتے ہیں۔

درویش پر یہ بھی آشکار ہوا کہ وہ ادیب اور شاعر ’فنکار اور دانشور جو درویشی اختیار کرتے ہیں وہ اپنی بصارتوں اور بصیرتوں سے خدمت خلق بھی کرتے ہیں۔ وہ انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلتے ہیں‘ انہیں بہتر انسان بننے کی ترغیب و تحریک دیتے ہیں اور کرہ ارض پر ایک پر امن معاشرہ قائم کرنے کا پہلے خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

درویش نے عرفان ذات سے عرفان کائنات کے سفر میں جانا کہ انسانی ارتقا کے ہر دور میں سنتوں اور سادھووں ’شاعروں اور دانشوروں‘ سائنسدانوں اور سکالروں نے اپنا اپنا سچ دریافت کیا اور پھر اس سچ سے انسانیت کی خدمت کی اور یہی انسانی ارتقا کا راز ہے۔

درویش نے یہ بھی جانا کہ ہر انسان کا پوری انسانیت سے گہرا رشتہ ہے اور سب انسان ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں کیونکہ وہ سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔