ڈاکٹر خالد سہیل نامور ماہر نفسیات ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ انسان دوست ماحول دوست ڈاکٹر سہیل جہاں دوستوں کے لیے محبت کا استعارہ ہیں وہاں بیماروں کے لیے مسیحا صفت شخصیت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میرا تعارف ”ہم سب“ کے ذریعے ہوا جہاں ان کی تحریروں نے ان کی صفت مسیحائی کے ساتھ ساتھ ادب سے ان کی وابستگی سے متعارف کروایا۔
ڈاکٹر صاحب نہایت دھیمے انداز اور شگفتہ مزاج کے مالک ہیں جو اس جلتی بلتی اور چلچلاتی دنیا میں پرسکون سرسبز جزیرہ بسانے کے متمنی ہیں جس کی ٹھنڈک دھیرے دھیرے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ڈاکٹر صاحب بہترین سامع ہیں اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ان سے فون پر بات ہوئی اور کچھ ہی دیر بعد صرف میں ہی بول رہی تھی اور ڈاکٹر صاحب نہایت سکون اور توجہ سے سن رہے تھے۔
جو کسی بھی انسان کی بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ دوسرے انسان کی بات توجہ سے سن کر اسے اس کی اہمیت کا احساس دلائے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت شفقت فرمائی اور اپنی کتاب The Art of Loving in Green Zone مجھے بھیجی۔ یہ کتاب نفسیاتی مسائل کے حل کے ساتھ ساتھ مختلف مشقوں پر مشتمل ہے جن کی مدد سے کوئی شخص جو مسلسل ییلو یا ریڈ زون میں رہتا ہو آہستہ آہستہ گرین زون میں داخل ہو جاتا ہے ۔
کتاب میں کل سات ابواب ہیں اس کے ساتھ گرین زون میں خود شناسی کے سوالات اور چارٹس دیے گئے ہیں۔
تعارف میں ڈاکٹر صاحب نے آدم و حوا کے رشتے کے حوالے سے کہا کہ یہ دنیا کی بنیاد ہیں مگر یہ ایسا تعلق ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں رہ سکتے اور ساتھ رہنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اس لئے کتاب میں ایسی مشقیں اور مشورے دیے گئے ہیں جن سے انسان آہستہ آہستہ خود پر کنٹرول حاصل کر کے دوسروں کے جذبات و احساسات کا بھی خیال رکھ سکتا ہے۔
گرین زون میں رہنے کے لیے سب سے اہم چیز خود شناسی اور خود آگہی ہے۔ اگر انسان اپنے جذبات و احساسات سے واقف نہیں تو وہ باآسانی منفی رویوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے لیے ڈائری بنانے کا مشورہ دیتے ہیں جن میں کوئی بھی شخص دن کے مختلف اوقات میں اپنی جذباتی کیفیات کو درج کرے تاکہ اپنا تجزیہ خود کرنا سیکھے ۔
اس میں ذاتی دلچسپیاں اور مشاغل بھی شامل ہیں کہ کون سے کاموں سے وہ خوشی اور کن سے جذباتی انتشار محسوس کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ معاشیات بھی انسانی زندگی کا ایسا جزو ہے جو اگر غیر متوازن ہو تو انسان بہت مشکلات اور پریشانیوں کا۔ شکار رہتا ہے۔ پرسکون زندگی گزارنے کے لئے متوازن معاشی معاملات بھی ضروری ہیں تاکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان کو بھی گرین زون میں رکھ کر پروان چڑھایا جائے۔
ہر انسان فطرت کی طرف سے کچھ تحفے ساتھ لاتا ہے یہ تحفے اس کی صلاحیتیں ہیں۔ مختلف لوگ مختلف مشاغل اور شوق رکھتے ہیں اگر وہ انہیں مثبت طریقے سے استعمال کریں تو نہایت خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں مثلاً موسیقی شعر و ادب آرٹ کے مختلف شعبے نت نئے پکوان ملبوسات کی خوبصورت اور جدید تراش خراش گھر کی آرائش یا باغبانی یا کوئی ایسا کام جو اسے خوشی فراہم کرے۔
ہمیشہ ییلو یا ریڈ زون میں رہنے والے لوگ جسمانی جذباتی ذہنی اور جنسی دباؤ میں رہتے ہیں۔ ایسے لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں سے ضرورت کے تحت محبت کرتے ہیں جبکہ سچی محبت کرنے والے ایک دوسرے پر مکمل بھروسا کرتے ہیں۔ رشتوں کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسرے کے جذبات کا بھی احترام کرے۔ محبت کرنے والے نازک و کومل احساسات کے مالک اور پرجوش ہوتے ہیں۔
خط نویسی کو آدھی ملاقات کہا جاتا ہے۔ آج کے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ڈاکٹر صاحب خط نویسی کی اہمیت سے واقف ہیں ان کے مریض انہیں خط لکھتے ہیں جن سے ان کے علاج میں مدد ملتی ہے۔ اپنے پیاروں کو خط کے ذریعے جوڑنا بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ جوڑے جو زیادہ تر ییلو یا ریڈ زون میں رہتے ہیں وہ ایک دوسرے کی خاطر خواہ مدد کر سکتے ہیں جن میں ہفتہ وار پکنک سینما یا کچھ مشترکہ یا الگ الگ مشاغل جو انہیں ذہنی دباؤ سے باہر نکلنے میں مدد دے سکتے ہوں اپنانے چاہئیں۔
فیملی آف ہارٹس ڈاکٹر صاحب کے تخلیقی ذہن کی اختراع ہے جسے عام لوگ بھی اپنا سکتے ہیں اور دوستوں کے ایسے گروپس جو مل بیٹھ کر دکھ سکھ بانٹیں۔ گرین زون میں رہنے والے جوڑے تابندہ اور روشن زندگی جیتے ہیں ایسے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی عزت کرتے ہیں یہ محبت اور جنسی معاملات میں متحد ہوتے ہیں اور آپس میں گہری دوستی اور آزادی کا تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دوسرے خاندانوں سے مضبوط رشتے بناتے ہیں اور درویشی اور محبت کے راستے پر چلتے ہیں
کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے۔ اپنے مریضوں کو بھی ساتھ رکھا ہے اور ان کے جذبات و احساسات انہی کی زبانی بیان کیے ہیں کتاب نہایت سادہ اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ اس میں گنجلک فلسفے یا مشکل تھیوریز کی بجائے محبت سے راحت پہنچانے کا سامان ہے۔ محبت جو فاتح عالم ہے۔