زینب بیٹا مجھے کبھی معاف نہ کرنا

آمنہ مفتی
مصنفہ و کالم نگار


زینب
قصور کی ننھی زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد اسے اذیتیں دے کر قتل کیا گیا اور اس کی لاش اغوا کے تین روز بعد کچرے کے ڈھیر سے ملی۔ یہ ایک خبر تھی۔ ایسی خبریں روز نہ سہی لیکن سننے میں آتی رہتی ہیں، مگر اس خبر پر پورا ملک ہل کر رہ گیا اور احتجاج کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس میں دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پولیس ابھی تک قاتلوں کو گرفتار نہیں کر پائی۔ غم وغصے کی اس فضا میں بہت سی تجاویز سامنے آ ئیں جن پر عمل کر کے آ نے والے وقتوں میں اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔
میں بھی یہ سب سنتی اور پڑھتی رہی۔ زندگی اپنے معمول پر چلتی رہی، اسی طرح جیسے کسی عزیز کی موت کے بعد بھی انسان زندہ رہتا ہے، کھاتا پیتا ہے، اٹھتا بیٹھتا ہے، تیار ہو کر دفتر جاتا ہے، کام کرتا ہے اور رات کو سکون کی یا بے سکونی کی نیند سو جاتا ہے۔

لیکن ان تمام دنوں میں دو سبز آ نکھیں جن میں شرارت اور زندگی بھری ہوئی تھی مجھے گھورتی رہیں ایک آواز، کبھی مدھم، کبھی ایک گھٹی ہوئی چیخ کی صورت میرے کانوں میں گونجتی رہی، ’امی!‘۔
میں نے بہت کوشش کی کہ دانش مند لوگوں کی طرح اس دکھ بھری صورت حال میں سے کوئی سمجھ داری کی بات نکالوں، آ نے والے دنوں کے لیے کسی امید بھرے وقت کا نقشہ سوچوں، کوئی ایسا الرٹ سسٹم جس سے اغوا شدہ بچوں کی بازیابی آسان اور جلد ہو سکے۔ بچوں کو سکھانے کا کوئی سیلف ڈیفینس کا طریقہ، بچوں کو جنسی ہراسانی سے بچنے کی تعلیم کا کوئی نصاب، کچھ تو، کوئی تو بات ہوش مندوں والی۔ لیکن ہوتا یہ رہا کہ جب کچھ سوچتی تھی، ایک چیخ کانوں کے پردے پھاڑ کے کلیجہ چیرتی چلی جاتی تھی،'امی!'۔
مظاہرہ
تصویر کے کاپی رائٹ
مجھے لگتا تھا زینب مجھے پکار رہی ہے اور پھر سوائے رونے کے کچھ اور نہیں کیا جا سکتا۔ اگر روتے رہنے سے کچھ ہوتا تو میں روتی رہتی۔ جیسے ہم سب کی مائیں روتی رہتی ہیں۔ ماں اور آنسوؤں کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ اولاد کی تکلیف پر رونے اور اسے گلے سے لگانے کے علاوہ ہماری مائیں آج تک کیا کر سکیں؟
بہت سال پہلے جب عصمت آپا کی 'ٹیڑھی لکیر' پڑھی تھی تو انتساب فوراً سمجھ آ گیا تھا۔ ’ان بچوں کے نام جو ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی یتیم ہیں۔
کچھ عرصے بعد جب 'لحاف' پڑھی تو بھی بات سمجھ آ گئی تھی، 'اللہ میاں کا ڈنڈا'( مصنف کا نام بھول گئی) پڑھی تو بھی سمجھ گئی، کچھ عرصے پہلے 'می ٹو' نامی تحریک چلی تو بھی بات سمجھ آئی اور زینب کے سانحے نے تو شاید ان کو بھی بات سمجھا دی جو کسی صورت بات سمجھنا نہیں چاہتے۔
یہ معاملہ صرف بچوں میں شعور کی کمی کا نہیں ہے۔ بچوں کو اچھے برے لمس کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ مسئلہ سماجی ہے۔ کسی رشتے دار کو ناراض کرنے کی نسبت ہم بہتر یہ ہی سمجھتے ہیں کہ بچوں کو خاموش کرا دیا جائے۔
پیڈوفیلیا کو ثقافت اور امراض قرار دے کر بچوں کو مزید غیر محفوظ کر دیا جائے۔ پیڈوفیلیا کا ہر مریض مجرم نہیں ہوتا اور ہر مجرم، پیڈو فیلیا کا مریض نہیں ہوتا۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش سے بھی نظر آ رہا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔ جاوید اقبال کا کردار کسی کو نہیں بھولا۔ اسی قصور میں بچوں کی برہنہ ویڈیوز کا معاملہ نکلااور دبا دیا گیا۔ زینب کا حادثہ بھی کسی ایسے ہی بھیانک سلسلے کی کڑی محسوس ہو رہا ہے۔
بچوں کے ساتھ بد سلوکی، تشدد، ان سے مشقت لینے اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات آج سے نہیں ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے بچہ ایک خاندان اور معاشرے ہی میں جنم لیتا ہے۔ پورے خاندان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس بچے کی دیکھ بھال اور خوشگوار تربیت میں حصہ لے۔
مظاہرہ
مگر ہوتا یہ ہے کہ بچہ صرف اور صرف ماں کی ذمہ داری بنا دیا جاتا ہے۔ ماں پر اس کے علاوہ بھی گھر کا بہت سا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ گھریلو کام کاج کے ساتھ معاشی اور سماجی طور پہ اس پر بے شمار ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔
ان ذمہ داریوں کے ساتھ ایک عمومی، خاندانی دباؤ جو ماں کو کسی بھی طرح بچے کو محفوظ ماحول دینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ باپ، بچوں کی ذمہ داری کو صرف اس حد تک اپنا سمجھتے ہیں کہ کما کر لے آ ئیں اور کسی بھی غلطی یا نقصان کی صورت میں ان کو برا بھلا کہہ سکیں۔ اسی فی صد گھروں کا یہ ہی ماحول ہے۔
ان حالات سے گھبرا کے بہت سے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں اور مجرموں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ ایسے ہی مجرم جب ان کے منہ کو خون لگ جاتا ہے، زینب کی طرح کسی بد نصیب بچے یا بچی کی طرف سے لمحے بھر کی غفلت کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔
بچے صرف ماں کی ذمہ داری نہیں، باپ، پورا خاندان، معاشرہ اور ریاست، سب کے سب بچوں کی تربیت، ان کی ذہنی اور جسمانی صحت اور ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ آ ج ہر شخص خود کو زینب کا مجرم سمجھ رہا ہے کیونکہ کسی نہ کسی سطح پر ہم نے بچوں کے خلاف جرائم کرنے والے، یا بری نیت رکھنے والے اشخاص کو بے نقاب نہیں کیا۔ اس لیے ان مجرموں کی آ ج اتنی ہمت ہو گئی۔
ہم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو کسی ایسے شخص کو نہ جانتا ہو جس نے بچوں پہ تشدد، ذہنی جبر یا جنسی تشدد کیا ہو، یا کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے معاشرے میں مو جود ہونے سے قصور ویڈیوز کا سانحہ پیش آیا اور آج یہ بھیانک حادثہ۔
حد یہ ہے کہ میں بھی ایسے کتنے ہی کرداروں کو جانتی ہوں جو بچوں اور بچیوں کو غلط طریقے سے چومتے ہیں۔ ان کے جسم پر برے انداز میں ہاتھ پھیرتے ہیں اور پھر سر پہ گول ٹوپی اوڑھ کے مسجد چلے جاتے ہیں۔ میں بھی سوائے خوف سے شل ہو جانے کے کچھ نہیں کر سکتی۔
یہ ہی خاموشی میرا جرم ہے اور آ پ کا بھی۔ زینب میری بچی! میں آ ج بھی چپ ہوں، جو شخص تمہارے گھر کے آ گے ٹہل رہا تھا اسے ہم سب جانتے ہیں مگر ہم چپ ہیں۔ یہ وہ ہی بد بخت ہے جس نے مسجد میں، سکول کے راستے میں، لیب میں، ہسپتال میں، درزی کی دکان پر، خالہ زاد کی شادی پر، فٹ بال گراؤنڈ میں، دفتر میں، گھر میں، کسی نہ کسی روپ میں ہمیں بھی ہراساں کیا تھا۔ یہ آ ج بھی دندناتا پھر رہا ہے کیونکہ جب میرے ہی گلے میں اس کا نام مچھلی کے کانٹے کی طرح پھنس گیا ہے تو اور کون بولے گا؟
زینب میری بیٹی! مجھے مت پکارو اور مجھے کبھی معاف نہ کرنا۔ مجھے اور مجھ جیسے اپنے سب بزدل ہمدردوں کو اپنے ضمیر کی آ گ میں جلنے دینا۔ ہماری تکلیف اس تکلیف کا پاسنگ بھی نہیں جو تم اٹھا گئیں۔ ہمیں کبھی معاف نہ کرنا بیٹا!