تحریم عظیم
بھارت کی ایک ریاست کیرالہ کے مشہور زمانہ سبریملا آئیپّا مندر میں پچاس سال سے کم عمر کی خواتین کو مندر کے اندر جانےکی اجازت نہیں تھی۔ اس پابندی کے خلاف سپریم کورٹ کا در کھٹکھٹایا گیا جہاں سے تین ماہ قبل ہر عمر کی خاتون کو مندر میں جانے کی اجازت ملی۔ مندر کمیٹی اور کٹر پنتھی ہندو تنظیمو ں کے علاوہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس اجازت نامے کو اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت قراردیتے ہوئے اس کی سخت مخالفت کی اور خواتین کو مندر میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔ بدھ کے روز 40 کے پیٹے میں موجود دو عورتوں نے آدھی رات کو پولیس کی نگرانی میں مندر میں پوجا کر کے تاریخ رقم کی۔ اس تاریخی قدم کے بعد اب تک کیرالہ کے مختلف حصوں میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ روز ایک دوست کے نکاح کے لیے مسجد جانا پڑا تو احساس ہوا کہ پاکستان میں بھی خواتین کا عبادت گاہ خصوصاً مساجد میں جانا اور بیٹھنا پسند نہیں کیا جاتا۔ گرچہ ہماری مساجد میں خواتین کے لیے الگ حصہ ہوتا ہے لیکن انتظامیہ کا رویہ ان کے ساتھ عموماً تحقیر آمیز ہی ہوتا ہے خاص طور پر ان خواتین کے ساتھ جو روائیتی برقع نہیں پہنتیں اور مسجد انتظامیہ کی نظر میں بے پردہ ہوتی ہیں۔
میں جب مسجد میں داخل ہوئی تو گھڑی کی سوئی نو کا ہندسہ عبور کر چکی تھی۔ مسجد کے دروازے کے ساتھ ہی جوتے رکھنے کے لیے بڑے بڑے ڈبے رکھے ہوئے تھے۔ ہم نے باری باری جوتے اتار کر اس ڈبے میں ڈالے اور ننگے پائوں ہال کی طرف چل دیے۔ مسجد میں صرف دلہا دلہن اور ان کے قریبی رشتے دار موجود تھے۔ ہال کے ایک طرف پردہ لگا کر خواتین کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ مولوی صاحب کی نظر سجی بنی عورتوں پر پڑی تو ان کے ماتھے پر بَل پڑ گئے۔ خواتین شرمندہ ہوتے ہوئے جلدی جلدی پردے کے دوسری طرف والے حصے میں داخل ہو گئیں۔ چند لمحے پہلے جو خواتین مارکی میں اپنے روائیتی مہندی کے لباس پہنے اترائی اترائی پھر رہیں تھیں، اب اپنے سراپے پر شرمندہ شرمندہ مسجد کے فرش پر بیٹھیں تھیں۔
مردوں کی طرف نکاح نامہ پُر ہونے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ مولوی صاحب دلہن سے ایجاب و قبول کروانے آ رہے ہیں۔ تمام خواتین نے ماتھے تک دوپٹے لٹکا لیے۔ دلہن کا دوپٹہ کچھ ایسا سیٹ تھا کہ سر کے بال نظر آ رہے تھے۔ میرا سبز رنگ کا دوپٹہ تھا۔ اس سے دلہن کو گھونگٹ کروایا گیا اور ایک گرم اونی شال مجھے اوڑھنے کے لیے پکڑا دی۔
مولوی صاحب اندر داخل ہوئے تو ان کے ماتھے کے بَل اور گہرے ہوگئے۔ ہم نے سر گھٹنوں میں دے دیے۔ ان کا ایمان بچانے کے لیے اب ہم اتنا ہی کر سکتے تھے۔ مولوی صاحب کی کرسی دلہن سے مناسب فاصلے پر رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کرسی کھینچ کر دلہن کے بالکل قریب کی اور دھیمی آواز میں اسے کلمے پڑھانے لگے۔ لڑکی نے نکاح نامے پر دستخط کیے، مولوی صاحب نے ساتھ آئے مردوں سے حق مہر کی رقم طلب کی اور دلہن کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ سلام کرتے ہوئے اٹھے اور دلہے کی طرف چلے گئے۔دلہے کے ‘قبول ہے’ کہنے کے بعد نکاح کی رسم مکمل ہوئی۔ مولوی صاحب نے شکر کا سانس لیا اور مہمانوں کو فوری طور پر مسجد خالی کرنے کا حکم دے دیا۔ پہلے مرد باہر نکلے اور دلہے کو مارکی میں لے گئے جہاں مہندی کی رسم ہونی تھی۔
مردوں کے جانے کے بعد خواتین پردے کے پیچھے سے نکلیں۔ اب دلہن کو مارکی میں لے کر جانا تھا۔ اس کی کزنز کے انتظار میں ہم مسجد کے صحن میں ہی کھڑے تھے۔ اچانک سے مولوی صاحب آئے اور غصے سے کہنے لگے کہ جوتے پہن کر مسجد کا تقدس نہ خراب کریں۔ ہم شرمندگی سے مسجد کے دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے۔ دلہن کی کزنز اس کا زرق برق دوپٹہ لے کر آئیں تو ہم دلہن کو لے کر باہر نکلے۔ ہمارے نکلتے ہی کسی نے دھاڑ سے مسجد کا دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی لگا لی۔
اس بند دروازے کو دیکھ کر مجھے بیجنگ کی ایک قدیم مسجد نیوجی یاد آئی جہاں گزشتہ برس ہم نے عید کی نماز پڑھی تھی۔ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ چینی اب بھی مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل یا کیمرا تھا۔ وہ ایک قطار میں چلتے آ رہے تھے۔ ہاتھ میں پکڑے موبائل یا کیمرے سے مسجد کی اور نمازیوں کی تصاویر بناتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ مرد و خواتین سب نے روزمرہ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ خواتین نے سکارف سے سر کے بال چھپائے ہوئے تھے۔
نماز ختم ہوئی تو ہم ایک طرف بیٹھ گئے۔ چند چینی کیمرے پکڑ کر دھڑا دھڑ ہماری تصاویر بنانے لگے۔ کسی مولوی نے آ کر انہیں باہر جانے کا نہیں کہا۔ کسی مولوی کی آنکھوں میں خواتین کے لیے تحقیر نہیں نظر آئی۔ عید کا دن تھا اور سب اپنے اللہ کے گھر مہمان بن کر آئے تھے۔ اس رب کی نظر میں سب برابر تھے۔ وہ سب کی برابری سے مہمان نوازی کر رہا تھا۔ وہاں کا مولوی یہ بات جانتا تھا، یہاں کا مولوی نہیں جانتا۔