فہیم اختر،لندن
سعودی عرب کی اٹھارہ سالہ لڑکی رہف محمد القنون کی اپیل پر اقوام ِمتحدہ سے لے کر انسانی حقوق کے حامی ممالک نے رہف پر ہمدردی دکھا کر اور سہارا کی بانہیں پھیلا کر اس کو پناہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ دراصل یہ پورا معاملہ اتنا پیچیدہ ہو چکا تھا کہ اگر اقوامِ متحدہ خاموش رہتی تو تو انسانی حقوق کے حامی اور مہم چلانے والے گروپ آسانی سے اس معاملے کو دبنے نہیں دیتے۔ ویسے یہ معاملہ سیدھا سیدھا سعودی عرب سے منسلک تھا۔ رپورٹ سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ایسی کوشش ضرور کی گئی ہے کہ رہف کو ڈرا دھمکاکر سعودی عرب واپس بھیج دیا جائے تاکہ یہ معاملہ منظرِ عام پر نہ آئے۔
رہف اپنی فیملی کو چھوڑ کر بنکاک ہوتے ہوئے آسٹریلیا جانے کی کوشش میں سنیچر 5 جنوری کی شام بنکاک ہوائی اڈے پر پکڑی گئی۔ اس پورے معاملے کی جانکاری رہف کے اس ٹویٹ سے شروع ہوئی جو اس نے بنکاک ہوٹل سے لکھا تھا۔ رہف نے اپنے چوبیس چاہنے والوں کو یہ پیغام لکھا کہ بنکاک میں اسے سعودی سفارت خانے نے روک رکھا ہے اور اسے اس کی مرضی کے خلاف سعودی عرب بھیجنا چاہ رہے ہیں تاکہ ان کے خاندان والے اسے جان سے مار دیں۔ رہف کی ٹویٹ کا اثر اس وقت زور پکڑ گیا جب اس پر امریکہ میں مقیم مصری خاتون مونا الیتھوی جو کہ ایک سرگرم کارکن ہیں اور جس کی نظر رہف کے ٹویٹ پر پڑی اور اس نے رہف کی ٹوئٹ کو عربی سے انگریزی میں ترجمہ کر کے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو بھیج دیا۔ پھر کیا تھا رہف کی اپیل دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اور اس طرح رہف کا انگریزی پیغام بنکاک میں مقیم ہیومن رائٹ واچ کے ایشیائی ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابٹسن تک پہنچ گیا۔
اتوار 6 جنوری کی صبح ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابٹسن نے رہف محمد سے رابطہ کر کے اس کو صبر سے کام لینے کی صلاح دی اور اقوام ِ متحدہ کے دفتر سے مسلسل مشورہ لینے لگے۔ فل رابٹسن نے میڈیا کو بتا یا کہ جب انہوں نے رہف محمد کو ٹیلی ویژن پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ اسلام مذہب کو ترک کر چکی ہے تو فل رابٹسن نے فوراً یہ محسوس کر لیا کہ رہف محمد کی جان خطرے میں ہے۔ فل رابٹسن نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ اگر سعودی عرب میں کوئی اسلام مذہب کے خلاف بولے یا ترک کرے تو اس کی سزا ’موت‘ ہے۔ اسی لئے انہوں نے فوراً اقوامِ متحدہ سے رابطہ کیا تا کہ رہف محمد کو سعودی عرب واپس نہ بھیجا جائے اور اسے فوراً کسی ملک میں پناہ دی جائے۔
تاہم رہف محمد نے ہمت دکھاتے ہوئے تھائی سیکورٹی افسروں اور سعودی عرب کے سفارت کار کو ہوٹل کے کمرے میں داخل ہونے نہیں دیا۔ جس کی تصایر وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ لگاتار بھیجتی رہیں۔ ادھر سعودی سفارت خانے کے افسران نے تھائی حکام کی مدد سے رہف کو کویت واپس بھیجنے کی مانگ کی اور رہف محمد کا پاسپورٹ ضبط کر لیا۔ آخر کار سوموار 7 جنوری کو رہف محمد کو اس وقت راحت ملی جب اقوامِ متحدہ کی درخواست پر رہف محمد کو کینیڈا جانے کی اجازت مل گئی۔ تاہم رہف محمد کا کہنا تھا کہ ان کے پاس آسٹریلیا جانے کا ویزا پہلے سے موجود تھا لیکن تھائی کسٹم افسران نے ان کی بات کو ماننے سے انکار کرد یا۔
سنیچر 12 جنوری کو رہف محمد کی کینیڈا پہنچنے کی خبر تمام اخبارات نے نمایاں طور سے شائع کی اور دنیا بھر سے رہف محمد کو کینیڈا پہنچنے پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ ظاہر سی بات ہے رہف محمد نے جس طرح سے پورے معاملے کو اچھالا تھا، ایسا ہونا لازمی تھا۔ تصویر میں دکھایا گیا کہ رہف محمد اقوامِ متحدہ کی بلو ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر ہیومن رائٹس کا لوگو بنا ہوا تھا اور اس نے ایک لباس زیب تن کیا ہوا تھا جس پر انگریزی میں کینیڈا لکھا ہو اتھا۔
لیکن حیرانی مجھے اس وقت ہوئی جب میری نظر رہف محمد کی اس تصویر پر پڑی جس میں دکھایا گیا کہ رہف محمد کا اسکرٹ گھٹنوں سے اوپر تھا جس سے اس کی ٹانگ نمایاں تھی۔ جو شاید اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ رہف محمد کو ایسی ہی آزادی کی خواہش تھی جو شاید اسے اپنے ملک سعودی عرب میں کبھی نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ ایک تصویر اخبار میں ایسی بھی شائع ہوئی ہے جس میں دورانِ سفر رہف محمد نے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھاما ہوا تھا۔ گویا کہ ان تمام باتوں سے یہ ثابت کیا جارہا تھا کہ اسلام مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ کیسی زیادتی کی جاتی ہے اور ان کی آزادی کا گلا کیسے گھو نٹا جاتا ہے۔
سعودی عرب کی اٹھارہ سال کی لڑکی اسلام کو ترک کرنے کی بات کہہ کر پوری دنیا کی توجہ کو مرکز بن گئی اورشاید دنیا والے بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ سعودی عرب کی لڑکیوں پر گھر والے کافی ظلم کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا بھی ہوگا تو مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے لیکن کیا ایسا صرف سعودی عرب جیسے ملک میں ہی ہوتا ہے۔ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سماجی اور خاندانی مسئلہ ہے۔
اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے دیگر مسلم آبادی والے ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ ان مسلم آبادی والے ممالک میں لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ اعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہیں۔ تاہم میں اس بات کو مانتا ہوں کہ مذہبی طور پر مسلم آبادی والے ممالک میں عورتوں کے ساتھ کئی پابندیاں لگائی گئی ہیں جو کہ قابل غور معاملہ ہے۔
خیر یہ تھی رہف محمد القنون کی مختصر کہانی جو پچھلے ہفتے مسلسل سرخیوں میں بنی ہوئی تھی۔ رہف محمد آزاد ہو گئی اور انہیں دنیا کا ایک ترقی یافتہ ملک کینیڈا میں پناہ بھی مل گئی۔ لیکن جہاں رہف کی داستان کو پڑھ کر افسوس ہوتا ہے وہیں ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اقوامِ متحدہ رہف جیسی لاکھوں لڑکیوں کو آزادی دلانے سے کیوں لاتعلق ہے۔ اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے دنیا کے ان ممالک پر نظر ڈالیں جہاں کی آبادی مسلم نہیں ہے اور جو اسلام مذہب بھی نہیں مانتے ہیں۔ تو وہاں اب تک اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس واچ کے افسران پہنچنے میں ناکام کیوں ہیں۔ جنوبی امریکہ اور افریقہ میں ہزاروں لڑکیاں ایسی ہیں جو بنا مرد کی اجازت کے کوئی کام نہیں کر سکتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی مدد کرنے میں کیوں ہیومن رائٹس واچ ناکام ہے۔