ڈاکٹر شہناز شورو
برازیل کے شہرہٴ آفاق ناول نگار پاوٴلو کوئلہو کا ناول ”دی الکیمسٹ“ اب پڑھ کر مکمل کیا ہے۔ 1988 ء میں پرتگیزی زبان میں لکھے گئے اور بعد ازاں انگریزی میں ترجمہ شدہ ناول کو 2019 ء میں پڑھنا، خود کو ادب کے نالائق شاگردوں میں شمار کرنے لائق ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ وقت آپ کو اپنی من مانی نہیں کرنے دیتا، لہاذا مجھے بھی وقت نے اس ناول کے سبق کو یاد کرنے کی چھٹی دیر سے عنایت کی۔ خود کو تسلی دیتے ہوئے یہ خیال بھی آتا ہے کہ آفاقی ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ زوال آشنا نہیں ہوتا۔ گزرتے مہ و سال اس کی نیرنگی میں اضافہ کرتے ہیں۔
یقین نہیں آتا تو دُنیا کے معتبر ترین 10 ناولوں کی فہرستیں اُٹھا کر دیکھ لیجیے۔ ہر لسٹ میں وہ حیرت انگیز ناول ”فرینکنسٹا ئن“ موجود ہو گا جسے رومانوی عہد کے حسین ترین، تنک و تلون مزاج، رومینٹٹک شاعر پرسی بشی شیلے کی محبت کی اسیر، اٹھارہ سالہ دھان پان سی ”میری شیلے“ نے تحریر کیا۔ میری شیلے، جس نے اپنی خوابناک محبت کی بھیانک تعبیر دیکھی تھی۔ اور قبل اس کے کہ وہ اپنے وجود اور محبت دونوں سے مکمل انکاری ہوتی، قدرت نے اسے زندگی کا عظیم مقصد عطا کر دیا۔
1816 کی ایک طوفانی رات میں جنیوا جھیل کے کنارے جب وہ اپنی سوتیلی بہن کلیرا کلئیرمنٹ، پرسی بشی شیلے اور جان پلیڈوری کے ساتھ وقت گزارنے کے لئے لارڈ بائرن سے ”جرمن گھوسٹ کہانیاں“ سن رہی تھی، اس نے لارڈ بائرن کا یہ چیلنج قبول کیا کہ وہ ایک گھوسٹ ناول لکھے گی۔ گو بائرن کی طرف سے یہ چیلنج اس محفل میں موجود ہر فرد کے لئے تھا مگر اس لمحے نے شاید میری شیلے کے وجود میں اپنے لفظوں کے ذریعے سدا جینے کی آرزو کو یکایک بیدار کر دیاتھا۔ اور یوں نائٹ میئرز کے عذابوں سے گزرتے ہوئے، اس نے ”فرینکنسٹائن“ لکھا۔ ایک ایسا ناول جس نے میری شیلے کو ادب کی دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔
دی الکیمسٹ بھی شاید ایک ایسا ہی ناول ہے جسے پڑھنے والے کبھی نہ بھلا سکیں گے اور آنے والے زمانوں میں بھی شائقین ادب اسے پڑھنا چاہیں گے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ نال دنیا کی 90 سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اس کی 88 ملین کاپیاں اب تک فروخت ہو چکی ہیں۔ اس ناول کے بارے میں یہ لکھنا بڑا آسان ہو گا کہ ایک چرواہا، الکیمسٹ بننے کی تمنا میں کن کن کرداروں سے ملت اہے اور تجرباتِ زمانہ سے گزرتا ہوا زندگی سے کیسے اور کیا سیکھتا ہے۔
مگر کیا یہ جملہ یا ایسے چند جملے اس مختصر ناول کی اہم کہانی اتنی آسانی سے بیان کر سکتے ہیں جس میں پاوٴلو کوئلہو نے زمانہ قدیم کی دانائی سے بھرپور روایتوں اورروحانی تجربات کے ساتھ ساتھ سائنس اور فلسفے کی دانش مندانہ روش کو عہد حاضر کے ساتھ جوڑنے کی ایک خوبصورت کوشش کی ہے۔ اس ناول پرآسانی سے تبصرہ کرنا مشکل ہے کیوں کہ شاید یہ ناول بھی دنیائے ادب کے اس معتبر ترین حصے میں شامل ہے جوسمجھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔ مثال کے طور پر سراج اورنگ آبادی کی ناقابل بیان حد تک خوبصورت غزل کا پہلا شعر پڑھئے :
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا، جو رہی سوبے خبری رہی
کیا آپ لغت کی مدد سے اس شعر کی تشریح کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں۔ ۔ ۔ تو پھر آپ سخن شناس نہیں ہیں اور اگر آپ سخن شناسی اور سخن فہمی کے دعویدار ہیں تو بھی آپ عاشق ہر گزنہیں ہو سکتے۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے آپ کو لغو ی و اصطلاحی معنی کی حدود سے ماور ا ہونا پڑے گا۔ اس شعر کو آپ ایک نفیس تہذیبی و شعری روایت کے تسلسل اور عشق شناسی کی روشنی کے بغیر سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہی بات دی الکیمسٹ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔
پاوٴلو کوئلہو کے اس ناول کو اگر آپ لاجک، ر یشنلٹی اور ریزننگ کی کسوٹی پرپرکھیں گے تو آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ لیکن اگر آپ اسے وجدان، جنون اور رموزومعرفت کی عشق پیچاں کی ہمراہی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں اک جہانِ نو دریافت کریں گے۔ دی الکیمسٹ، فلسفہٴ وحدت الوجود کی عمیق گہرائیوں، وجودیت اور رُوحانیت کی پُراسرار گھاٹیوں پر لگن و شوق کی مسافتوں پر نکلے عشق کے مسافروں کی کہانی ہے جو ظاہر سے باطن کے سفر پہ نکلے۔
اؤ رروحِ کائنات کی تلاش میں نامعلوم کی مسافتوں سے ہوتے ہوئے معلوم کے راستے پہ منتظرمحبت کے آفاقی دائرے میں جیون بسر کرنے آن پہنچے۔ یہ ناول نہ صرف زندگی کے اس مہمل معمّہ کو، جسے البیر کامیو ایبسرڈٹی کہتا ہے، ایک خوبصورت معنویت دیتا ہے بلکہ افلاطون کے اس نظرئیے کو کہ یہ دنیا ایک مغالطہ یا فریبِ نظر ہے اور اصل کائنات کا عکس ہے، کو یہ کہہ کر ایک نیا زاویہ دیتا ہے کہ یہ دُنیا خدا کا پرتو ہے۔
شاید یہ پاوٴلو کوئلہو کی اپنی کہانی ہے۔ اپنی زندگی کے جن گوشوں تک پاوٴلو کوئلہو نے ہمیں رسائی دی ہے انہیں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنی نظر سے دُنیا دیکھنے اور اپنے ڈھنگ سے زندگی گزارنے کی اُمنگ اس کے اندر بچپن سے موجود تھی۔ اس نے زندگی کو ایک تجربے اور کائنات کو ایک کھلونے کی طرح دیکھا اوردل و جان سے اسے سمجھنے، سیکھنے اور کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔ اسے بچپن میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ادیب، سائنسدان، مظاہرِ فطرت سے قربت کے خواہاں صوفی اور ظلم کے خلاف سرگرم عمل رہنے والے باغی اس کائنات کے اصل جوہری ہیں۔
یہ زندگی کو معنی و مفہوم دینے کی کوشش میں جُتے رہتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں رنگوں کے، خوشیوں کے، ابدی سکون و اطمینان قلب کے پھول ہوتے ہیں، اور جب وہ یہ مضامین فضا میں بکھیرتے ہیں تو کائنات گنگنا اُٹھتی ہے۔ ان کی روح کائنات کی رُوح سے مکالمہ کرتی ہے۔ اور محبت کائنات کا رِدھم اور الوہی نغمہ ہے جیسے خدا کی آواز۔ دھرتی کا انسان ازل سے اسی آواز کی تلاش میں ہے جس کی تلاش میں مذہب ایک رُکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔
پائلو کوئلہو کا ماننا ہے کہ عقلِ انسانی کی خوبصورتی کو مذاہب نے دائروں میں قید کر کے انسانوں کو تقسیم کر دیا ہے جس سے انسانوں کی دوسرے انسانوں کے ساتھ فطری اور قدرتی روابط میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ گویا آرگنائزڈ مذاہب انسان کی ازلی روحانی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مساجد میں، مندروں اور کلیساؤں میں شاید کبھی کسی کو خدا نہیں ملتا اس لیے کہ یہ خدا کے مصنوعی گھر ہیں۔ خدا کا حقیقی گھر۔ دل ہے، کائنات ہے، قدرت اور اس کے مظاہر ہیں۔
مذاہب سے رُوحانیت کو آزاد کروا کر انسان کائنات کا ہمراز ہو سکتا ہے اور انسان سے بلا تفریق محبت کر سکتا ہے۔ اور بقول پائلو کوئلہو تمام مذاہب کا بنیادی مسئلہ یکساں ہے اور وہ یہ کہ ہر مذہب کا کہنا ہے کہ صرف وہی درست ہے۔ پاوٴلو کوئلہو کہتا ہے کہ اسے بہت پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ مذہب کی آنکھ سے وہ دنیاکو کبھی نہیں سمجھ سکے گا، اسے کائنات کو پرکھنے کے لئے اور ان سوالات کے جوابات جاننے کے لئے جن کے جواب صحرا، ہوا، سورج، دنیاوی علوم اور دانا و بینا مفکرین کی دسترس میں بھی نہیں، اسے اس ہاتھ تک رسائی حاصل کرنی ہے جس نے یہ گنجلک ماسٹر پلان لکھا۔
اوائلی عمر سے ہی پاوٴلو کوئلہو کو ادب سے عشق تھا مگر اس کے ادیب بننے کی خواہش اس کے مذہبی والدین کے لئے اس حد تک پریشان کن ثابت ہوئی کہ انہوں نے اس کو سترہ برس کی عمر میں ماہر نفسیات کے پاس بھیجا، جہاں اسے Electroconvulsive Theropy کے مراحل سے گزرنا پڑا مگر اس کے Nonconfirmist مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ مرحلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ جیسے ہی اس نے ایک تھیٹر گروپ جوائن کیا اور صحافت میں دلچسپی ظاہر کی اسے دوبارہ اس نفسیاتی علاج سے گزرنا پڑا۔
مگر جوان ہوتے ہی گویا اس نے اپنے آپ کو زندگی کی تجربہ گاہ میں آزاد چھوڑ دیا۔ وہ ہپی اورگوریلا گروپوں کے ساتھ رہا۔ جب ملٹری نے اس کے ملک کی باگ ڈور سنبھالی، پاوٴلو کوئلہو نے ”امن اور محبت کی جنریشن“ کا حصہ بنتے ہوئے پروگریسو سیاست اپنائی۔ لاطینی امریکہ کے سفر نے اس کو روحانی تجربات سے دوچار کیا اور اس نے فنون لطیفہ کے تما م شعبوں سے جی بھر کے محبت کی۔ اس نے دُھنیں ترتیب دیں، اداکاری کی، نغمے لکھے اور گا ئے اور برازیل کے راک میوزک کو ایک نئی پہچان دی۔
اسی دور میں اس نے اپنا رسالہ نکالا، اور ایک تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد فریڈم اور آزادیٴ رائے کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا تھا۔ اس تنظیم کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے پاوٴلو کوئلہو نے مضامین کی ایک سیریز لکھی۔ حکومت کی طرف سے اس تنظیم پر پابندی لگنے کے صرف دو دن بعد پاوٴلو کوئلہو کو پارلیمینٹیرینز کے ایک گروپ نے اغوا کر کے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ آزاد ہوتے سمے اس کی عمر چھبیس برس تھی۔ اس تجربے نے پاوٴلو کوئلہو کو ہلا کر رکھ دیا۔
زندگی کے اس بوجھل پن اور بے معنویت سے گھبرا کر اس نے ”نارمل“ زندگی گزارنے کا سوچا۔ وہ موسیقی اور ادب کی طرف لوٹ آیا۔ مگر پھر ایک روحانی تجربے نے گویا اسے مقصد ِحیات سے آشنا کر دیا۔ اس کی ملاقات ایک اجنبی سے ایمسٹرڈ م میں ہوئی، جسے وہ دو ما ہ قبل خواب میں دیکھ چکا تھا۔ اس ملاقات نے گویا اسے ادب لکھنے کاسمت نما عطا کیا۔ اس اجنبی شخص کے مشورے پر وہ زیارت کے لئے سنتیاگو گیا اور یہ سفر نہ صرف اس کے معروف ناولPILGRIMAGE کی بنیاد بنا بلکہ یہیں سے دی الکیمسٹ کی تخلیق کا آغاز بھی ہوا۔
دی الکیمسٹ کا بنیادی حُسن ابتدائی دور کے قصے کہانیوں میں موجود کیمیا گری کا ذوق، کیمیا گروں کی جہدِمسلسل اور ”ماسٹر ورک“ کی ڈسکوری ہے، جسے روح کائنات کہا جاتا ہے، کو عہدحاضر سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ ”ماسٹر ورک“ جوایک طویل جان لیوا ریاضت و تجربے کا نتیجہ ہوتا ہے، اورجس کے جوہر کو پانا آسان نہیں مگر اس تک رسائی کے بعد انسان حیاتِ جاودانی کا نقیب بن جاتا ہے۔ یہ طویل ریاضتی عمل کیمیا گرکو نہ صرف طہارتِ قلب سے آشنا کرواتا ہے بلکہ آشنا ئے رازِ کائنات بھی کردیتا ہے۔ اس ”ماسٹر ورک“ کا ایک حصہ ”الیکثئر آف لائف“ اور دوسرا ”فلاسفرز سٹون“ کہلاتا ہے۔ اوراس دریافت کے نتیجے میں اس کرہٴ ارض کے ہر راز سے پردہ اٹھ جاتا ہے کیونکہ یہی روحِ کائنات ہے یعنی وہ زبان جس میں کائنات کے تمام مظاہر ایک دوسرے سے ہمکلام ہیں۔
شاید ہم میں سے ہر ایک کو کیمیا گر کی تلاش ہے۔ یہ تلاش دراصل اپنے وجود کے اندر موٴجزن ہمہ وقت اضطرابی کیفیت کو سمجھنے اور اس سے دو بدو مکالمہ کرنے کی خواہش اورخود کو جان لینے کی حسرت یا آرزوئے ناتمام سے عبارت ہے۔ مگر کیمیا گر کو کس کی تلاش ہے اسے جاننے کے لئے ’دی الکیمسٹ ”پڑھنا ضروری ہے۔ پاوٴلو کوئلہو کہتا ہے، خواب دیکھواور ان خوابوں کو معنویت دینا شروع کرو۔ جب یہ خواب تمہاری سوچ میں شامل ہو کر تمہارے وجود کا حصہ بن جائیں گے تب تم اپنے خوابوں کی تعبیر پا لوگے۔ کیونکہ ایسا ممکن نہیں کہ تم دل کی سچائی سے خواب دیکھو اور محبت سے انہیں تعبیر کرنا چاہو اور قدرت تمہارا ساتھ نہ دے۔ جو خواب تعبیر نہیں ہوں گے وہ یقینا ً تمہارے لئے نہیں ہوں گے۔
مگر ان خوابوں کا اہل ہونے کے لئے خود شناسی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ بقول پاوٴلوکوئلہو، عجیب بات ہے کہ ہر ایک کے پاس ایک واضح خاکہ ہوتا ہے کہ دوسرے اپنی زندگی کیسے گزاریں مگر وہ خود اپنی زندگی کیسے گزاریں۔ اس کا ان کے پاس کوئی خاکہ نہیں ہوتا۔ بس وہ یہ چاہتے ہیں کہ مطلوبہ شخص تبدیل ہو جائے، ایسے جیسے وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اوراگر کوئی ایسا نہیں بننا چاہتا جیسا وہ اسے دیکھنا چاہتے ہیں تب وہ لوگ برا مناتے ہیں۔
دوم، انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے خود کو جاننے سے زیادہ اس بات کی فکر رہتی ہے کہ دوسرے اسے جانیں۔ وہ معروف ہو اور پہچانا جائے اور سراہا بھی جائے اور اسے وہ خوشی کہتا ہے اور سمجھتا ہے۔ مگر یہ کیف بھی حاصل ہونے کے بعد بے سُرور ہو جاتا ہے اور پھر وہ شناخت کے ایک اور بحران میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ناول کا ایک کردار کہتا ہے ”میرا خوف یہ ہے کہ اگر میرے خوابوں کو منزل مِل گئی تو میرے جینے کا جواز ختم ہو جائے گا۔
” پاوٴلو کوئلہو کا کہنا ہے کہ اپنے دل سے کہو کہ تکلیف کا خوف تکلیف سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اورجب کوئی دل اپنے خوابوں کی تلاش میں ہوتا ہے وہ تکلیف سے نہیں گزرتا۔ دنیا میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو خواہش کی تکمیل کو ناممکن بنا دیتی ہے اوروہ ہے شکست کاخوف۔ خوابوں کی تعبیر کے حصول سے چند لمحے قبل چیزیں مزید مشکل نظر آتی ہیں۔ مگر جنون خیزی اور عشق کی طاقت کی بدولت کائنات کے اندر موجود تمام عناصرخوابوں کے مالک کو اس کی منزل سے ہمکنار کرنے کی جستجو کرنے لگتے ہیں۔ دی الکیمسٹ کے خالق کا کہنا ہے کہ وہ
Luck & Coincidence
پر ایک پورا انسائیکلوپیڈیا لکھ سکتا ہے کہ ان دو لفظوں پہ کائنات کی ازلی زبان لکھی ہوئی ہے۔
پاوٴلو کوئلہو واضح طور پر کہتا ہے کہ جاننا ہی اصل علم ہے۔ تجربات ہی زندگی کا اثاثہ ہیں۔ مگر ہر غلطی کا خمیازہ بھی بھگتتنا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر مختلف راستے ہیں، آپ کے راستے کا چناؤ آپ کے اختیار میں ہے مگر ہر فیصلے کی ایک قیمت ہے۔ اور غلط یا درست فیصلہ ہونے کی صورت میں جوابدہ بہرحال آپ خود ہیں اور یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ اس غلطی یا سیکھ کے ساتھ رہنا ہے، جینا ہے آگے بڑھنا ہے یا بیچ راستے میں پڑاؤ ڈال دینا ہے۔
مگر اس سارے سفر میں Omen (شگون ) کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جو دراصل قدرت کے اِشاروں، کنایوں اور رمز کو سمجھنے کا عمل ہے۔ شاید یہ وہی زبان ہے جسے بقول ولیئم ورڈزورتھ بولتے ہوئے بچہ دنیا میں وارد ہوتاہے اور پھر انسان کی زبان سیکھنے کا عمل شروع کرتا ہے۔ غلطیاں کرتا ہے۔ پھر سنبھلتا ہے اور پھر سیکھتا ہے مگر جس زبان میں وہ کلام کرتا دنیا میں آتا ہے، اسے، یعنی خدا کی زبان کو بھول جاتا ہے۔ پاوٴلوکوئلہو، ہمیں خدا کی زبان، جو کائنات کی روح ہے، سیکھنے کے عمل کی طرف راغب کرتا ہے کہ یہ دراصل رُوحِ ازل سے رُوحِ انسانی کے کلام کا فن ہے اورنظام قدرت کو سمجھنے کی ایک عظیم ترکوشش ہے۔
کیونکہ یہی وہ زبان ہے جس میں کائنات کا ذرّہ ذرّہ ہمکلام ہے۔ یہ روحِ کائنات دراصل محبت ہے، جس کو سمجھنے کی فطری شروعات مناظرفطرت اورحیاتیاتی رشتوں سے ہوتی ہے۔ جسے خوشی نمو بخشتی ہے۔ اور خوشی دراصل جینے کی آرزو کو مہمیز کرنے کا نام ہے۔ فطرت کی زبان سے محبت کرنے والے پاوٴلو کوئلہو کا ماننا ہے کہ ہم میں سے بے شمار لوگ کائنات کی رُوح کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
ادب کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ وہ قاری کے اندر جوش و جذبے کے ساتھ ساتھ ایک نئی فکر کی آبیاری بھی کرتا ہے۔ آپ خود کو توانا محسوس کرتے ہیں۔ ایک اچھی کتاب آپ کے اندر ہزاروں جنم لیتے اور طبعی و غیرطبعی موت مرتے سوالات میں سے کئی ایک کے جواب دے دیتی ہے۔ جاننے کا سواد۔ آپ کو سرشار کرتا ہے۔ جان لینے کا تحیر آپ کو مالامال کر دیتا ہے۔ دی الکیمسٹ بھی مقصد ِحیات کو جان لینے کی جستجو یا تکمیل ذات کا نام ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے نصب العین کو حاصل نہیں کر لیتا۔
یہ ناول آپ کو خوشی، جذبے، لگن اور محبت کے ساتھ قدرت کی ہمراہی میں زندگی کو سمجھنا سکھاتا ہے۔ اور بقول پاوٴلوکوئلہو، محبت۔ انسان کو اس کی منزل سے کبھی دور نہیں کرتی۔ کیونکہ جب ہم محبت کرتے ہیں تو ہم خود کو بہتر سے بہتر بنانے کی کاوشیں کرتے ہیں۔ یہ ناول آغازِ سفر کی جانب راغب کرتا ہے۔ یا یوں کہئے کہ مایوسی یا ناکامی کی دہشت کے بغیر، یعنی موت سے پہلے جینا سکھاتا ہے۔ آپ کا خواب آپ کو کہاں لے جاتا ہے، شاید یہ تصور آپ کو خوفزدہ کرے۔ لیکن آپ کر گزریں کیونکہ یہ ایک انوکھا تجربہ ہو گا۔ بقول پاوٴلو کوئلہو دُنیا کا کوئی حصہ اجنبی نہیں ہاں نیا ضرور ہو سکتا ہے۔
وہ پائلوکوئلہو، جس نے لکھا کہ ”میں سوالات کی تلاش میں رہتا ہوں نہ کہ جوابات کی“ اور یہ کہ ”موت میرے لیے ایک حسین عورت کی مانند ہے۔ “ سے جب نامہ نگارنے سوال کیا کہ ”آپ کے خیال میں آپ کی قبر کے کتبے پہ کیا لکھا ہوا ہونا چاہیے؟ “ تو اس کا جواب تھا۔
صرف اتناکہ: ”پاوٴلو کوئلہو جب مرا، اس وقت وہ زندہ تھا۔ “
”مگر سبھی اس وقت مرتے ہیں جب زندہ ہوتے ہیں۔ “ سوال کرنے والے نے قدرے حیرت سے پوچھا۔
”نہیں۔ یہ درست نہیں۔ اگر آپ کی زندگی ایک ہی دائرے میں گردش پذیر ہے تو آپ زندہ کیسے ہوئے؟ “ پاوٴلو کوئلہو نے جواب دیا۔