حکمرانوں، سیاست دانوں، اداکاروں اور کرکٹرز کے درمیان کافی قربت پائی جاتی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت اور پاکستان میں تو اکثر اداکار اور کرکٹرز سیاست میں حصہ لیتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ سیاست اپنے شعبے میں رہتے ہوئے، وہ پہلے ہی سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکمران اور سیاست دان بھی اداکاروں سے متاثر نظر آتے ہیں اور ذاتی زندگی میں ان کے قریب نظر آتے ہیں۔
گزشتہ جمعے جامع مسجد بطحی ( سخی حسن، کراچی ) کے مولوی صاحب ناموں کے ذاتی زندگی پر اثرات کے حوالے سے تقریر فرما رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ ان کا بیٹا اکثر بیمار رہتا ہے۔ مولوی صاحب نے بیماری کی نوعیت پوچھنے سے قبل بچے کا نام پوچھا۔ پریشان باپ نے کہا کہ انیل نام ہے۔ مولوی صاحب نے پھر پوچھا کہ کس کے مشورے سے نام رکھا؟ تو بچے کا باپ بولا کہ ایک خاتون نے کہا تھا، انیلا لڑکیوں کا نام ہوتا ہے، تمہارے لڑکا ہوا ہے تو انیل نام رکھ لو۔ مولوی صاحب کا کہنا تھا کہ بچے کا نام چونکہ ہندوانہ ہے، اسی لیے بچہ بیماریوں میں گھرا ہوا ہے۔
محض اتفاق کہ مولوی صاحب کی تقریر سننے کے دو چار دن بعد ٹی وی پر خبر سنی کہ وزیر تعلیم سندھ مہر سردار علی شاہ اداکار انیل کپور کے فلم نائیک میں بطور وزیر اعلی کے کردار سے متاثر ہیں اور انیل کپور نے بطور وزیر اعلی جو حکومتی اقدامات کیے تھے، وزیر تعلیم سندھ بھی اسی طرح کے اقدامات بطور وزیر تعلیم ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ مولوی صاحب اور وزیر تعلیم سندھ کے بیان کے بعد سب سے پہلے تو یہ اشتیاق پیدا ہوا کہ انیل نام کے معنی معلوم کیے جائیں اور فلم نائیک کی کہانی از سر نو جانی جائے۔
فتوِی آن لائن کے مفتی شبیر قادری کے مطابق انیل نام کسی مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور انہوں نے نام کے معنی ”پہنچنے والا“ بتایا۔ دیگر ذرائع سے بھی پتا چلا کہ انیل بہترین نام ہے اور اس کے معنی تخلیق، توجہ، مرکوز، جدید، سخاوت، مزاج اور حاصل کرنا ہے۔ انیل نام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مولوی صاحب نے بلا تحقیق انیل نام کے متعلق تقریر جھاڑ دی۔
وزیر تعلیم سندھ کے بیان سے کافی عرصے قبل معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف کے ٹاک شو میں سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ موجود تھے۔ جناب ارشد شریف نے فرمایا کہ میرے پروڈیوسر نے سردار لطیف کھوسہ کی فرمائش پر ایک ویڈیو کلپ بنایا ہے، جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ویڈیو کلپ میں سیاسی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، وزیر اعلی کے فلمی کردار کو سابق وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلی پنجاب میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے ملانے کی بھونڈی کوشش کی گئی، جس کو دیکھ سردار لطیف کھوسہ بہت محظوظ ہوئے۔
فلم نائیک کے ایک سین میں اداکار انیل کپور بطور اینکر پرسن جب وزیر اعلی ( امریش پوری ) سے تند و تیز سوالات کر رہے تھے تو وزیر اعلی انیل کپور کو پیشکش کرتے ہیں کہ وہ 24 گھنٹے کے لیے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال کر دیکھیں تو ان کو حکومتی ذمے داریوں کا احساس ہو جائے گا کہ حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں۔ انیل کپور وزیر اعلی کی پیشکش قبول کرتے ہوئے، 24 گھنٹے کے لیے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھال لیتے ہیں۔
انیل کپور عہدہ سنبھالتے ہی بد عنوان عناصر کے خلاف اندھا دھند کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں، کسی کا لائسنس منسوخ کرتے ہیں تو کسی کا پرمٹ اور کسی کو جیل کی ہوا کھلاتے ہیں اور عدالت عظمی اور نیب کی طرز پر کارروائیاں شروع کرتے ہیں۔ جس کو دیکھ کر بھولے بھالے عوام بہت خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں۔
وطن عزیز میں بھی حکمراں، وزراء اور ریاستی اداروں کے سربراہ فلمی کرداروں سے شدید متاثر نظر آتے ہیں اور محض عوام کو خوش کرنے کے لیے ایسی باتیں اور اقدامات کرتے ہیں کہ عوام خوش اور تالیاں بجاتے رہیں۔ خواہ ان اقدامات سے ریاستی خزانے سے پیسے کے ساتھ وقت بھی کا ضیاع ہو۔ جیسے ٹی وی چینلز کے رپورٹرز ٹی آر پی کے حصول کے لیے قبر تک میں لیٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح ریاستی اداروں کے سربراہ کبھی اسپتال پر چھاپہ مار کر شراب برآمد کرتے ہیں تو کبھی وزیروں، مشیروں اور اعلی عہدے پر فائز سرکاری افسران کو عدالت طلب کر کے رگیدتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایف آئی اے نے عدالت عظمی سے اصغر خان کیس بند کرنے کی سفارش کی اور عدالت عظمی نے بحریہ ٹاؤن کے سربراہ سے گفت و شنید کے بعد بحریہ ٹاؤن کے منجمد اثاثے بحال کر دیے۔ اسی طرح وزیر اعلی سندھ اور بلاول بھٹو کے نام عدالت عظمی کے حکم پر قائم کی گئی، جے آئی ٹی کی سفارش پر ای سی ایل میں ڈالے گئے اور عدالت عظمی کے حکم پر ای سی ایل نکال لیے گئے۔ عوام کے ساتھ یہ مذاق کب تک جاری رہے گا؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اب عوام کا ایک بڑا طبقہ سستی شہرت کے حصول کے اس طریقے سے بے زار نظر آتا ہے۔
جیسے مولوی صاحب نے بنا سوچے سمجھے اور بلا تحقیق انیل نام کو بیماری کا سبب بتایا اور نام کی وجہ سے جھاڑ پھونک کا اثر نہ ہونے کا تاثر دیا اور ساتھ ہی شہرت کے حصول کے لیے نمازیوں تک یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ مولوی صاحب جھاڑ پھونک بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح وزیر تعلیم سندھ نے بھی عہدہ سنبھالتے ہی شہرت کے حصول کے لیے اپنی بیٹی کو سرکاری اسکول میں داخلہ دلواتے وقت کی تصاویر میڈیا کو جاری کیں۔ جس پر میڈیا میں تو خوب واہ واہ ہو گئی۔ لیکن حقیقت حال کیا ہے، اس کا اندازہ بھی با شعور عوام کو ہے۔
انیل کپور تو 24 گھنٹے کے لیے وزیر اعلی بنے تھے اور اس میں ان کی بھاگ دوڑ حقیقت سے دور اور موُجب حیرت تھی۔ جب کہ وزیر تعلیم تو کئی ماہ سے عہدے پر فائز ہیں اور محکمہ تعلیم میں سدھار کی کوئی خبر اب تک عوام تک نہیں پہنچی ہے۔ وزیر تعلیم سندھ کو چاہیے کہ فیسوں میں کمی کے حوالے سے عوام کو خوش کرنے کے لیے بے سروپا بیانات سے اجتناب کریں اور اہنی وزارت میں پائی جانے والی بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم اس سطح ہر لے آئیں کہ عوام نجی اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلوانے پر مجبور نہ ہوں۔
مولوی صاحب ہوں، وزیر تعلیم سندھ، سردار لطیف کھوسہ ہوں یا معروف اینکر ارشد شریف سب عوام کے جذبات سے کھیل کر اپنی اپنی ریٹنگ بڑھانے میں مصروف ہیں۔