ویلنٹائنز ڈے آ رہا ہے اور جیسے فیض صاحب کہتے تھے، ” دل عشاق کی خبر لینا / پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں” محبت کے مارے اظہار کے مختلف حربے اپنائیں گے۔ حربے اس لئے کہا کہ فقیہہ شہر مے کی اجازت کیا دے گا کہ چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں۔ ادھر روایتوں کے ماروں نے ویلنٹائنز ڈے کو ہر شکست خوردہ ذہن کی طرح سسٹر ڈے کا اعلان کر دیا۔ بہن کہنے یا نہ کہنے یا کچھ اور کہنے کا معاملہ بھی دلچسپ ہے۔ سعادت حسن منٹو نے عصمت چغتائی سے کہا کہ جب کوئی کسی کو بہن کہہ کر بلاتا ہے تو گویا اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ وہ اس عورت کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ، “میں ہمیشہ عصمت کو عصمت بہن اور وہ مجھے منٹو بھائی کہہ کر پکارتی ہے”۔
میں خود کو ایک لبرل آدمی سمجھتا ہوں لیکن پر تکلف رشتوں میں بہن، باجی یا بھابی کا لاحقہ لگانا عزت کی علامت سمجھتا ہوں۔ دفاتر میں یا ساتھی کولیگز کو البتہ عمر کے لحاظ سے مخاطب کرتا ہوں۔ آپ کس کو کیا کہتے ہیں اور کس کے لیے کیا جذبات رکھتے ہیں اور ان جذبات کو کوئی نام دینا چاہتے ہیں یا نہیں یا ان جذبات کو عملی اظہار کی بھٹی میں پکانا چاہتے ہیں یا نظر کی عیاشی سے بدن کی لطافتیں کشید کرنے تک جانا چاہتے ہیں یا لا حاصلی کے خمار میں غرق رہنا اور رکھنا چاہتے ہیں یا احساس کو مہمیز لگا کر تشنہ دکھنا اور اس ایذا رسانی سے مخمور ہونا چاہتے ہیں یا اظہار اور نارسائی کی چکی میں پستے رہ کر میٹھا میٹھا درد اٹھانا چاہتے ہیں، سب آپ کا ذاتی معاملہ ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ کوئی خواہش پس دامان وفا مجھ سے پوشیدہ میرے پیش نظر ہوتی ہے۔ وہ شعوری بھی ہو سکتی ہے اور لا شعوری بھی۔
پھول بیچنے والے، لال جوڑے سینے والے، کارڈ بیچنے والے، محبتوں پر ناٹک رچانے والے، نظمیں لکھنے والے، مباحث کرنے والے بے چارے تو اپنی اپنی دوکانداری چمکا رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہم اس کاروبار کی مذمت کرتے ہیں اور نہ اسے برا سمجھتے ہیں۔ کچھ احمق کہتے پائے جاتے ہیں کہ گورے کا تہوار ہے اور ہم نے اپنا بنا لیا۔ کسی نے کیا اچھی بات کہی کہ جناب کرکٹ حجاج بن یوسف نے متعارف کروائی تھی۔ بس جو رائج ہے وہ رواج ہے۔
سسٹر ڈے کہنے کے بہت سے مضمرات ہیں جو روایت پرستوں کی سمجھ میں شاید نہ آئیں۔ بھئی کزن کے ساتھ شادیوں کے نقصانات سامنے ہیں کہ لنگڑے لولے بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ سماجی اور معاشی ڈھانچہ یوں بدل گیا ہے کہ چارہ کاٹنے والے، کالا دھن اکٹھا کرنے والے، غریبوں اور یتیموں کے نام پر پیسہ بٹورنے والے، بینکوں سے قرضے معاف کرانے والے راتوں رات کروڑ پتی بن رہے ہیں اور دانشور ان کی جوتیاں اٹھانے پر مجبور ہیں۔ شرفاء سفید پوشی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں اور بدہئیت نودولتے محبتوں کے نام پر پہلے شاخ گلاب جھکاتے ہیں اور پھر رس چوس کر اڑ جاتے ہیں۔
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
محبتوں کے اظہار کی ضرورت بھی ہے کہ انفرادی آزادی، ایکسپوژر اور کمپلیکس سوسائٹی اس اظہار کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ کزنز کے ساتھ شادیاں ہوتی تھیں تو مرد و خواتین کو کھونٹے گھر میں ہی دستیاب تھے لیکن اب کھونٹے تلاش کرنے پڑتے ہیں اور عموماً کوئی نہ کوئی عارضی طور پر کسی کھونٹے سے بندھا ہوتا ہے۔ کچھ کھونٹے بہت مضبوط نہیں ہوتے کہ انہیں کھینچ کھینچ کر زمین کے اندر ہی ہلا دیا گیا ہوتا ہے۔ کچھ کھونٹوں کو خالی کروایا جانا ہوتا ہے۔ کچھ کھونٹوں پر رسی کے نشان واضح ہوتے ہیں۔ کھونٹے ڈھونڈنے کے لئے ویلنٹائنز جیسے تہوار بہت ضروری ہیں۔
بات ہو رہی تھی سسٹر ڈے کی تو کہنا یہ ہے کہ عورت بہن کی صورت میں بہت بڑا تحفہ ہے لیکن وہ ہر ایک کی بہن بن گئی تو یہ دنیا بھائیوں کے وزن سے گر جائے گی۔ ہمارے ایک معصوم سے دوست ہیں ملک صاحب اور معصوم اس لیے کہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں چاہے کتنا ہی بورنگ کیوں نہ ہو۔ کہنے لگے اگر خاتون دل کو لگتی ہو تو محترمہ، مس یا مسز کہہ کر مخاطب کرتا ہوں اور اگر بے چاری واجبی سی ہو تو بے دھڑک باجی کہہ دیتا ہوں۔ شاید اسی لئے باجی، بہن یا بھابی کہنے پر پڑھی لکھی خاتون ناراض ہو جاتی ہے۔ بھابی کہلوانا صرف وہ خواتین پسند کرتی ہیں جو اپنے شوہروں سے بہت متاثر ہوتی ہیں اور جو انہیں لدھڑ سمجھتی ہیں وہ اپنے باپ کا نام اپنے نام کے ساتھ لگانا پسند کرتی ہیں اور بھابی وغیرہ کی بجائے نام سے بلائے جانا پسند کرتی ہیں۔ ویسے میری بیوی بھی اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کا نام لگاتی ہیں اور بھابی کہلوانے کی بجائے نام سے بلائے جانا پسند کرتی ہیں۔
ویلنٹائنز منانا اس معاشرے میں بہت جان جوکھوں کا کام ہے۔ محبوب سے ملنا بھی ہے اور ظالم سماج کی روایتوں سے بھی ٹکرانا ہے۔ سرخ کپڑے پہنے تو گھر والوں کو شک گذرے گا اور سرخ کپڑے نہ پہنے تو محبت کا حق ادا نہیں ہو گا۔ کبھی کسی دوست کے گھر سے اور کبھی کسی ہوسٹل میں رہنے والی دوست کے کمرے سے اور کبھی محبوب کی کار میں بیٹھ کر سرخ جوڑے پہنے جاتے ہیں۔ اے محبت ! تیرے انداز پہ رونا آیا۔
ایسے میں لبرل دانشوروں کی فیس بک پر خرافات پڑھنے کا بھی بہت مزا آتا ہے۔ ایک صاحب فرماتے ہیں، “جو ویلنٹائنز کے خلاف ہے سمجھو اسے کسی نے گھاس نہیں ڈالی”. “کچی مٹی تو مہکے گی اس کی اپنی مجبوری”. ایک فیس بکی لبرل دانشور کا تو بس نہیں چلتا کہ لوگوں کی ماؤں بہنوں، بیویوں، بیٹییوں کو بھانت بھانت کے محبوب ملوائیں اور ویلنٹائنز کو یوں منائیں جیسے رشتے کروانے والی مائیاں کمیشن کماتی ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم ایک ایسی متصادم اقدار والے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بہت سی روایات طبقاتی تفاوت کی وجہ سے باہم متصادم ہیں۔
ایک خاص طبقہ جو بہت کم ہے ویلنٹائنز ڈے کے جھنجھٹ میں پڑتا ہے ورنہ گاؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے محبت کے اظہار کے لئے کسی دن کے نہیں بلکہ مناسب موقع کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ہیر ویلنٹائنز منانے نکلے تو ہمارے جذبات اس کے ساتھ ہوتے ہیں اور اگر اپنے گھر سے نکلے تو کیدو کے ساتھ۔ لبرل دوستوں نے البتہ ویلنٹائنز کو عزت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ ادھار اٹھا لیں گے لیکن سرخ کوٹ ضرور پہنیں گے۔ تحفہ ضرور دیں گے۔ کچھ نہ کر سکے تو فیس بک پر محبت کرنے والوں کے جذبات ضرور گرمائیں گے چاہے کوئی محبت کا مارا دیوار ڈھونڈتا پھرے۔