ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
ان تمام یادوں میں ایک یاد ایسی ہے جس نے ہمیں بہت حیران و پریشان کیا اور یہ حیرت بہت سالوں تک ہمارے ساتھ رہی۔ ہم دیکھتے کہ کچھ لحیم وشحیم خواتین زرق برق لباس میں خوب میک اپ اور زیورات پہنے، دوپٹہ گلے میں لٹکائے، جسم کے خطوط نمایاں، بازار میں آ جا رہی ہوتیں، یک لخت کہیں رکتیں اور انتہائی موٹی اور مردانہ آواز میں گانا گاتیں اور تالیاں بجاتے ہوئے اشارے کرتیں، ہمیں کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ یہ کون عورتیں ہیں جو بازار میں یوں گھوم رہی ہیں ان کا حلیہ اس قدر مختلف کیوں ہے آواز مردوں جیسی کیوں ہے، میک اپ کیوں گہرا ہے لباس اس قدر شوخ اور تنگ کیوں ہے اور وہ کیوں اٹھلا اٹھلا کر دکانداروں سے بات کرتی ہیں اور جواب میں سب مردوں کی اتنی باچھیں کیوں کھلی ہیں۔ ہم نے مردوں کو انہیں آنکھ مارتے اور چٹکی کاٹتے بھی دیکھا جس پر وہ قطعی برا نہ مانتیں اور زور زور سے ہنس پڑتیں۔
ہم نے اپنی امی سے پوچھنے کی کوشش کی کہ یہ کون ہیں، امی نے جواب دینے کی بجائے فورا کوئی اور بات کر کے ہمارا دھیان بٹانا چاہا، ایک آدھ دفعہ کے لئے تو ٹھیک تھا اور ہم بہل بھی گئے مگر ان سوالوں کے جواب ہمیں کبھی نہ ملے، ہماری پر تجسس طبیعت نے جب ہار نہ مانی تو امی جھنجلا کے بولتیں ”چپ ہو جاؤ، دماغ نہ کھاؤ“ بہر حال اس ساری کہانی میں ہمیں ایک نام ازبر ہو چکا تھا جو ہم نے کسی دکاندار کو کہتے سنا تھا اور وہ تھا ”کھسرے“
اب ہمیں لفظ کھسرے پہ مزید تحقیق کرنا تھی ہم اپنے سوالوں کی بنیاد پہ خاندان میں سوالیہ نشان کے نام سے پکارے جاتے تھے اب ہمارے پاس کھسروں کے متعلق سوال تھے، ان کو اس نام سے کیوں پکارا جاتا ہے، یہ کون ہیں، یہ اس حلیے میں کیوں ہیں۔ جس سے بھی پوچھا، جواب ملا، بچے ایسی باتیں نہیں پوچھتے، یہ تمہاری عمر نہیں۔ اور مزید سوالوں کے جواب میں ایک زور دار ڈانٹ کھانے کو ملتی۔
کچھ سالوں بعد جب ہم میڈیکل کالج میں داخل ہوئے تو اس وقت تک اس معاشرتی المیے سے آگہی ہو چکی تھی کہ یہاں مرد و عورت کی شناخت کا مسئلہ ہے، ان لوگوں کی بنیادی شناخت دھندلی ہے، اگلے ہی لمحے دماغ نے سوال کیا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ بھڑکیلے چیختے ہوئے رنگوں کے کپڑے، میک اپ سے لپا ہواشیو زدہ چہرا، نقلی بالوں کی چوٹی، تنی ہوئی چھاتی، مردانہ ڈھیل ڈول اور بھاری آواز کے ساتھ گانا بجانا کرتے ہوئے روزی کی تلاش۔
میڈیکل کی تعلیم نے بہت سے سوالوں کے جواب دیے، جب بچہ ماں کے پیٹ میں نمو پاتا ہے اس وقت جب تمام اعضا ابتدائی تکمیل کے مرحلے میں ہوتے ہیں اس وقت بہت سی معلوم اور نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اعضا بننے کے عمل میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور نتیجے میں بچے میں گونگا پن، بہرہ پن، اندھا پن، لولا پن، لنگڑا پن، غرض کوئی بھی جسمانی کمی ہو سکتی ہے اسی طرح دماغی لحاظ سے خرابی کی صورت میں کم سمجھ، نا سمجھ، دیوانگی یا مجہول پن ملتا ہے
بالکل اسی طرح جنسی اعضا میں کمی بیشی رہ جاتی ہے، کچھ میں جنسی اعضا واضح طور پہ بن ہی نہیں پاتے، کچھ میں ہر دو اعضا بن جاتے ہیں، کچھ بچے اندرونی طور پہ ایک جنس اور بیرونی طور پہ دوسری جنس بن جاتے ہیں۔
یہاں یہ جاننا اہم ہے کہ سوائے جنسی اعضا کے ان کا سارا جسم اور دماغ ایک نارمل انسان کا ہوتا ہے، ایک ایسے انسان کا، جس کو بھوک بھی لگتی ہے اور پیاس بھی، ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی، بات کرنا بھی آتی ہے اور سمجھنا بھی۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب تمام خواہشات، احساسات، خیالات، جذبات اور ضروریات ایک عام انسان کی سی ہیں پھر ان لوگوں کو قبول کیوں نہیں کیا جاتا، جب والدین اپنے لولے، لنگڑے، کانے، مجہول بچے کو قبول کرتے ہیں تو جنسی اعضا کی خامی والے بچوں کے ساتھ یہ سلو ک کیوں؟ کیا جنسی اعضا اتنے اہم ہیں کہ ان میں خامی والدیں اور معاشرے دونوں کے لئے ناقابل قبول ہوتی ہے اور یہ دونوں ان بچوں کو خود ہی گالی بنا دیتے ہیں اور یہ نہ زندوں میں رہتے ہیں نہ مردوں میں، گالیاں، کوسنے، تمسخر ان کا مقدر بن جاتے ہیں، دو وقت کی روٹی کے لئے معاشرہ پاؤں میں گھنگرو پہنوا دیتا ہے سر پہ چھت بستی سے باہر دی جاتی ہے ہاں اگر جذبات کا غلبہ ہو تو ہم بستری کے بعد بندوق کی گولی مقدر ہوتی ہے، خس کم جہاں پاک۔
کیا مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا یقین نہیں کہ ہر مخلوق کا خالق خدا ہے اگر وہی پالن ہار ہے تو اس کی تخلیق کو ریجکٹ کرنا کیا ہمیں زیب دیتا ہے۔ کیا آج ہم سب جو اس خامی کا شکار نہیں کیا یہ ہمارا کریڈٹ ہے اور کیا ہمیں یقین ہے کہ ہم اس آزمائش کا شکار نہیں ہو سکتے اور کوئی کھسرا ہم میں سے کسی کے گھر پیدا نہیں ہو سکتا۔
یہ بچے اس دنیا میں والدین کی جسمانی وابستگی کے نتیجے میں آتے ہیں پھر یہ کہاں کا انصاف ٹہرا کہ رحم سے نکلنے والے ناقص مال کو سڑک پہ پھینک دیا جائے اور کام کا مال سنبھال لیا جائے یہ کرنے والے کامیاب کاروباری تو ہو سکتے ہیں والدین نہیں