محبت، نفسیاتی ہٹ دھرمیاں، شادی اور توڑ پھوڑ


وہ جب اپنا ہاتھ اس کے پاس لاتا ہے تو اسے اس سے گھن کے مارے ابکائی آنے لگتی ہے اور یہ ہاتھ اس شخص کا ہاتھ تھا جس کے ساتھ اس نے ساری زندگی گزارنی ہے۔ ان ہاتھوں کی جنبشوں سے لڑکیوں کے بے شمار جذبات اور ان میں بستے خواب وابستہ ہوتے ہیں۔ وہ پاس آتا ہے تو اس سے اٹھنے والی بدبو اس کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اور جب وہ اسے پیچھے ہٹنے کا بولتی ہے تو وہ زور زور سے چیخیں مارنے لگتا ہے اور وہ جو نئی زندگی کے ڈھیروں خواب سجائے اس کمرے میں گٹھڑی کی طرح رکھ دی جاتی ہے کسی بوسیدہ گٹھڑی کی طرح ڈری سہمی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو جو کہ اس وقت آگ کے گولے محسوس ہوتے ہیں لئے ہوئے کونے میں سمٹ جاتی ہے۔

اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے کہ کیا ماں باپ نے پال پوس کر اس دن کے لئے بڑا کیا تھا کہ ان کی زندگی کسی ذہنی، جسمانی یا نفسیاتی مریض کے حوالے کر دی جائے۔ ایسا ہی ہے نا مائیں اور بہنیں اپنے آدھے پاگل اور اکثر پورے پاگل لڑکوں کے لئے چاند سی دلہن ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں جو پڑھی لکھی ہونے کے ساتھ ساتھ سگھڑاپے کی ماہر ہو اور گھر سنبھالے اور حسن و ادا کی بھی اعلی صفت ہو کہ جو بیٹے خیر سے جو گھر والوں سے کنٹرول نہ ہوپائے انھیں اک دھان پان سی لڑکی آکر اپنے حسن و ادا سے سدھا لے مگر خود نہ صرف میاں کی غلام بلکہ سسرال والوں کی بھی داسی بن کے رہے۔

امریکہ کی رہنے والی ایک لڑکی نے کچھ دن پہلے اپنے ذہنی مریض شوہر سے چھٹکارا حاصل کیا جس کے بقول پاکستان لے جاکر اس کی شادی کر دی گئی اور اس کا شوہر ذہنی مریض تھا اور ساس دروازے کے باہر کھڑی ہوکر اس کے شوہر کو ہدایات دیتی تھی۔ لڑکی چونکہ امریکن تھی سو اس نے صاف کہا کہ وہ اپنی ماں کی ہدایات پر اس کا ریپ کرتا تھا اگر کوئی پاکستانی ماحول کی پروردہ لڑکی ہوتی تو شاید شادی کے دس سال تک تو اسے یہی سمجھ نہیں آنی تھی کہ ہو کیا رہا ہے اور ہونا کیا چاہیے تھا۔

یہاں تک کہ اچھی خاصی پڑھی لکھی لڑکیاں بھی معاشرتی، معاشی دباؤ اور جذباتی طور پر اتنی مستحکم نہیں ہوتیں کہ وہ کوئی فیصلہ کر سکیں۔ مجھے حیرت ہوئی تھی اس واقعے کی تفصیلات پڑھ کے کہ ایک عورت کس طرح دوسری عورت کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کرواسکتی ہے۔ محض اس لئے کہ اس کے ذہنی مریض بیٹے کی زندگی سنور جائے گی اور وہ اپنے پوتے پوتیاں کھلا سکے گی۔ یہ عورتیں یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ یہ پوتے پوتیاں آگے چل کے مکمل انسان بنیں گے اور جذباتی طور پہ ایسے باپ کی اولاد خود کو کہاں پائے گی؟

خیر یہ تو تھی کنفرم ذہنی مریض کی بیوی ہونے کی وہ اذیت جس کا کوئی مداوا نہیں لیکن ایک اذیت نفسیاتی طور پر غیر متوازن مرد کے ساتھ زندگی گزارنے کی ہے جس کا خمیازہ نہ صرف عورت کو بھگتنا پڑتا ہے بلکہ بچے بھی اس جذباتی اور نفسیاتی تناؤ سے متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ اثرات کیا ہو سکتے ہیں یہ ایک لمبی بحث ہے۔

زندگی کسی کے لئے بھی پھولوں کی سیج نہیں ہے مگر کچھ لوگ خوش قسمت بھی ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اکثریت شاید ایسے لوگوں کی ہے جن کی قسمت بھی ساتھ نہیں دیتی، نہ وقت اور نہ ہی حالات۔

کبھی کبھی بہت دکھ ہوتا ہے ایسی لڑکیوں کو دیکھ کر جو محفل کی جان ہوتی ہیں لیکن افسوس شوہر کی جان نہیں بن پاتیں بلکہ ان کے سامنے ریزرو ہو کے رہتی ہیں۔ ایسا کیوں؟ کیا شوہر کو محسوس نہیں ہوتا کہ وہ ایک انسان کی شخصیت دبا رہا ہے اور عین اس وقت وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اصل میں اپنی شخصیت کا بیڑہ غرق کررہا ہے۔ رعب داب کے چکر میں وہ زندگی کا چارم کھو رہا ہے۔ میاں بیوی دونوں مکمل با اختیار، مکمکل آزاد دوافراد ہیں۔ نکاح صرف ایک کانٹریکٹ ہے کوئی خونی رشتہ نہیں۔ ایک مکمل کانٹریکٹ کھ جزیات اگر پوری نہ ہورہی ہوں تو رشتے میں بچتا ہی کیا ہے سوائے برداشت کے۔ اور ہمارے ہاں اکثریت برداشت پر ضرورت، مفاد اور معاشرے کا تڑکہ لگا کے زندگی کو جتنا آگے کی طرف گھسیٹتی ہے وہ اتنا پیچھے کی طرف بھاگتی ہے۔

آج ایک رپورٹ نے تو جان ہی لے لی جس میں ایک وکیل شوہر نے اپنی حاملہ بیوی کو جان سے ماردیا کہ اسے بیٹی نہیں چاہیے تھی اور وہ ابارشن کے لئے بولتا رہا۔ بیوی نہیں مانی تو آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی کو مار ہی دیا۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے اک افسانہ لکھا تھا جس پہ اک ریگولر قاری نے بولا کہ آپ نے جو لکھا کہ آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی کو گھر سے نکال دیا اور وہ زمین پر گری پڑی رہی، کسی نے اٹھایا نہیں، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ افسانہ تھا مگر ہر افسانے کے پیچھے سینکڑوں حقائق چیخ رہے ہوتے ہیں ان کی چیخیں کوئی نہیں سنتا۔ اور ان کی چیخیں بھی کوئی نہیں سنتا جو چپ چاپ زندگی کا سفر کاٹ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر کسی بھی فیصلے کی قوت نہیں ہوتی

ہمارے معاشرے نے اکیلی عورت کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ بھلے قصور ہر بار مرد کا ہو مگر تذلیل اور زیادتی ہر بار عورت کے دامن میں آتی ہے اور یہ معاشرہ عورت کو کبھی سر اٹھا کے جینے کی اجازت مرحمت نہیں کر سکتا۔ اسے ہر حال میں عورت ایک مرد کے پیچھے چلتی اچھی لگتی ہے۔ ادھر اس نے ایک قدم آگے نکالا تو زمانے کی ٹھوکریں خیر مقدم کرنے کو تیار کھڑی ہوتی ہیں۔ آخر ہمارے سٹینڈرڈز ایسے کیوں ہیں۔

نفسیاتی اور جذباتی طور پر بیمار انسان کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بیمار انسان کے ساتھ زندگی کتنی بڑی اذیت ہوسکتی ہے یہ بھی وہی عورت بتا سکتی ہے جو اس سے گزر رہی ہو۔ دنیا تو صرف منہ اٹھا کے باتیں کر سکتی ہے عورت کے ہاں اولاد نہ ہو تو اس کے بانجھ پن کے قصے ہر عورت کا فیورٹ ٹاپک ہوتے ہیں اس کے ادھورے پن اور اپنی مشین کی کامیابی پر ہر دوسری عورت پھولی نہیں سماتی مگر کبھی کسی نے مرد کی جسمانی قابلیتوں کو کبھی ڈسکس کیوں نہیں کیا۔ جسے نہ مرد خود ڈسکس کرنا چاہتا ہے نہ ہی کہیں بانجھ مشہور ہوتا ہے۔ اتنا تضاد کیوں ہے ہمارے معاشرے میں؟

مرد کو بھی بڑی بڑی عجیب عورتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ عورتوں نے بھی آدھی دنیا کی ناک میں دم کر کے رکھا ہوا ہے یقیناً۔ لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ فیملی سسٹم کو چلانے کے لئے کون کتنا پس رہا ہے اور کون محض دوسرے کو آگے لگا کے زندگی میں موج کررہا ہے۔ مردوں اور عورتوں کی ڈھیروں ڈھیر مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی سچ ہے ایک عورت کا نہ صرف جذباتی بلکہ جسمانی اور نفسیاتی استحصال جتنی آسانی سے ہوجاتا ہے مرد کا یقیناً اتنی آسانی سے نہیں ہوسکتا۔ مغربی ممالک تک میں عورت کا استحصال ایک عام سی بات ہے تیسری دنیا میں تو بعض طبقوں میں عورت کو مخلوق تک نہیں سمجھاجاتا۔ اور میں ہمیشہ کی طرح پھر ایک ہی نتیجے پہ پہنچ کے پچھتا رہی ہوں کہ شادیاں کیا سوچ کے کی جاتی ہیں؟ زندگی اتنی ارزاں کیوں ہے؟ شخصی آزادی کے نعروں کی پیچھے دبتی مسکراہٹیں اور حقوق نسواں کے جھنڈے کے نیچے عورت کے حقوق کی لاش تک کی پرخچیاں اڑادی جاتی ہیں اور جواب دہ کوئی بھی نہیں حتی کہ کسی کو جواب کی طلب بھی نہیں۔