نوشی بٹ
بچوں کا جنسی استحصال اور ہمارا اس پہ عمومی رویہ بہت عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم بجائے اس کے کہ بچے کو اس بات کا اعتماد دیں کہ ہم اس کے ساتھ ہیں۔ اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ہمیں اس پہ یقین ہے، ہم بچے کو ڈراتے ہیں، بلکہ اسے چپ رہنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ بچہ جب جنسی طور پہ ہراساں ہوتا ہے تو وہ اندر سے بہت ڈر جاتا ہے۔ اسے یہ تو پتہ ہوتا ہے کہ یہ غلط ہوا ہے، لیکن وہ یہ بات اپنے والدین کو بھی بتانے سے ڈر رہا ہوتا ہے۔
میرے مشاہدے اور تجربے کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ زیادہ تر کیسز میں ہراساں کرنے والے والدین کے قریبی رشتے دار اور دوست ہوتے ہیں۔ جن سے بچہ مانوس ہوتا ہے، تو بچے کے نزدیک یہ بات شاکنگ ہوتی ہے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ہمارے یہاں بچوں کی ضروری جنسی تربیت چونکہ نہیں ہوتی تو بچہ اپنے آپ کو ہی برا اور غلط سمجھنے لگتا ہے۔ دوسری چیز والدین کا بچوں کے ساتھ رویہ ہے۔ ہمارے یہاں عام طور پہ والدین بچوں کے ساتھ سخت رویہ رکھتے ہیں۔ بچوں کی بات سننے کا رواج بہت کم گھرانوں میں ہے۔ اول تو بچے کو سننا ہی نہیں، اور بالفرض محال اسے سن لیا تو اسے شٹ اپ کہہ دیا جائے گا۔
”ششششش یہ بات کسی اور سے مت کہنا“ یہ ہوتا ہے والدین کا بچے کو جواب۔ بچے کی بات پہ یقین نہ کرنا اور اسے الٹا ان ہی لوگوں کے ساتھ زیادہ گھل مل کے رہنے پہ مجبور کیا جاتا ہے جن کے بارے بچہ شکایت کرے۔ جھوٹ تو صرف بچے بولتے ہیں بڑے تو فرشتے ہوتے ہیں یہ ہوتا ہے والدین کا رویہ۔ بچہ جب خوف محسوس کرتا ہے تو وہ بھاگ کے ماں کے پاس جاتا ہے۔ ماں بچے کو بہلاتی ہے اس کو سمجھاتی ہے۔ اسے بتاتی ہے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں میں تمہارے پاس ہوں۔ وہی ماں بچے کی نفسیات کو بری طرح مسخ کرتی ہے جب بچہ جنسی ہراساں ہو کے ماں کے پاس آتا ہے تو ماں اسے چپ رہنے کا کہتی ہے۔ میرے نزدیک یہ ناقابل برداشت ظلم ہے۔
ہم نے اس معاشرے کو اپنے بچوں کے لائق رہنے کی جگہ بنانا ہے تو ہمیں ہی پہل کرنی پڑے گی۔ ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرنی پڑے گی۔ ہمیں ان کو بتانا پڑے گا کہ آپ کو چومنے کا حق صرف آپ کے والدین کے پاس ہے۔ ہمیں بچوں کو بتانا پڑے گا کہ کسی کی گود میں نہیں بیٹھنا۔ کوئی بھی آپ کے پرائیوٹ باڈی پارٹ کو ٹچ کرے تو شور مچانا ہے۔ اجنبی لوگوں سے کچھ بھی لے کر نہیں کھانا۔ پیار اور ہراسمنٹ میں فرق ہے، یہ سمجھانا بھی ہمارا ہی کام ہے۔ بچہ اگر گم صم ہے یا ضرورت سے زیادہ لاؤڈ ہو رہا ہے تو اسے سننے کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ چپ نہیں رہنا۔ چاہے مقابل آپ کا سگا بھائی ہو، چاچا ہو یا ماما ہو اپنی اولاد کی تکلیف سے بڑھ کے کچھ نہیں۔ لوگ کیا کہیں گے یا ہماری عزت گھٹ جائے گی جیسے دقیانوسی و پرانے خیالات کے ساتھ زندگی مت گزاریں۔ آپ نے جن کو جنم دیا ہے ان کی حفاظت و تربیت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اپنے بچے کی جنسی تربیت آپ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا اور آپ کم سے کم اس تربیت سے ان کا نقصان نہیں کریں گے۔