خواجہ زبیر
محترم ڈاکٹر صاحب آپ کا تازہ مضمون ’منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لئے ہیں‘ نظر سے گزرا۔ آپ کے مضامین میں بہت شوق سے پڑھتا ہوں اور جس چیز کا لطف اٹھاتا ہوں اور دل ہی دل میں آپ کو داد دیتا ہوں اس کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔ آپ کا مطالعہ اور تجربہ نہایت وسیع ہے۔ شاعری تو آپ کی کمال ہے۔ آپ کا شعر ہے
یہ جو ٹھہرا ہوا سا پانی ہے
اس کی تہہ میں عجب روانی ہے
بحری رو سے تو انسان صدیوں سے واقف ہے۔ جہاز راں ان رووں پر جہاز ڈال کر کب سے گھومتے آئے ہیں۔ لیکن وہ رویں سطح پر چلتی ہیں اور surface currents کہلاتی ہیں۔ ایک شاعر جب اپنے شعر میں bottom currents کو استعمال کرتا ہے تو بندہ عش عش کر اٹھتا ہے کہ یہ شاعر ہے نفسیات دان اور ڈاکٹر ہے یا oceanographer؟ اچھا شعر نو مولود بچے کی طرح ہوتا ہے۔ پھپھو کو اس کی شکل ددھیال سے ملتی نظر آتی ہے تو خالہ کو ننھیال سے (چاہے حقیقت میں بچے کی شکل ہمسائے سے ملتی ہو) ۔
ایک ماہرِبحرِجغرافیہ (Oceanographer ) کو اس شعر میں Bottom Currents نظر آتی ہیں تو ایک انقلابی اس شعر میں انقلاب سے قبل تیاری کا دور دیکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی نفسیات دان کسی خاموش طبعیت، کم گو دوست کا ذکر سمجھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کسی محبوبہ کا تذکرہ ہو جو چاہتی تو ٹوٹ کے ہے پر اظہار نہیں کرتی۔ شاعر کے اپنے دل میں کیا تھا یہ تو شاعر ہی جانے پر ماہر نفسیات سے ماہرِبحرِجغرافیہ تک سب خوش ہو گئے۔
شاعری میں تو آپ اپنا جوہر دکھا ہی چکے ہیں لیکن یہاں میں آپ کی مضمون نگاری کا ذکر کرنا چاہ رہا تھا۔ شعر کہتے ہوئے آپ خود کو عام انسانوں کی ذہنی سطح سے بہت بلند کر کے شعر کہتے ہیں مگر حیران کن امر یہ ہے کہ مضامین لکھتے ہوئے کیسے آپ قارئین کی عمومی روایتی سطح پر اتر کر بات کرتے ہیں جیسے ایک ورلڈ کلاس فاسٹ باؤلر نرسری کے بچوں کو گیند بازی سکھا رہا ہو۔ مطالعے، مشاہدے، تجربے، صحبت وغیرہ سے اپنی ذہنی سطح کو بلند کرنا یقیناً مشکل ٹیکنیک ہے مگر اس سب کے بعد واپس نیچے آ کر عوام سے مخاطب ہونا ایک فن ہے۔
نہ جانے اوپر نیچے کا بار بار یہ سفر آپ کیسے کر پاتے ہیں۔ معروف موسیقار اور اداکار ارشد محمود اشتہاروں میں چلنے والے Jingles فاروق قیصر سے لکھوایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ فاروق قیصر دستیاب نہ تھے تو ارشد محمود نے فیض صاحب کی ان پر خاص شفقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فیض صاحب سے jingle لکھنے کی درخواست کر ڈالی۔ کہاں مقام فیض اور کہاں اشتہاروں کے jingle، خیر فیض صاحب نے ان کی پوری بات سنی کہ اشتہار کیا ہے اور پھر معذرت کر لی۔
ارشد محمود واپس آئے تو فیض صاحب نے فون پر jingle لکھوا دیا۔ ارشد محمود دھن ترتیب کر کے کلائنٹ کے پاس گئے تو ان کا jingle رد کر دیا گیا کہ اس کو مزید سنوار کر لاؤ۔ یہ واقعہ اس لیے نقل کیا کہ اپنی ذہنی سطح سے نیچے اتر کر کچھ کرنا کس قدر مشکل ہے اس کی مثال دے سکوں۔ مشاعرے میں شعر کہنا قدرے آسان ہوتا ہو گا۔ ہزاروں شاعر سینکڑوں مشاعروں میں شعر کہتے پائے گئے ہیں۔ مگر اسی شاعر کا ایک اکاؤنٹنٹ، مینیجر، دکاندار، طالبعلم، انجنیئر وغیرہ پر مشتمل عوام کے لیے ان کی ذہنی سطح پر اتر کر لکھنا مشاعرے میں دیگر شعراء سے داد لینے سے زیادہ مشکل کام ہے۔
عوام سے مخاطب ہونے کا مشاہدہ میں نے ”درویشوں کا ڈیرہ“ اور آپ کے دیگر مضامین میں کیا مگر یہاں ”منٹو کے افسانے صرف ذہنی بالغوں کے لیے ہیں“ پر لب کشائی کی گستاخی کر رہا ہوں۔ یوں تو بندہ بہت بے ادب واقع ہوا ہے۔ ادب اور وہ بھی منٹو کے افسانے، اس پر کچھ کہنے کی میری کیا اوقات۔ مگر جب ”کالی شلوار“ کی سرخی میں آپ نے یہ لکھا کہ ترقی پسند دانشور اور ادیب یہ چاہتے تھے کہ منٹو کرشن چندر کی طرح مزدوروں اور کسانوں کی جدوجہد کا ذکر کرے مگر منٹو کے لیے دائیں اور بائیں بازو کے نظریے نا قابلِ قبول تھے تو مجھے لگا آپ قلم اٹھانے کی ”تخریب“ دے رہے ہیں۔
کسی نظریے کو کسی انسان پر تھونپنا نا انصافی ہے۔ مگر اس نا انصافی سے بڑا جرم انقلاب روس کی فرطِ محبت میں بہہ کر ماضی کے کئی نام نہاد انقلابی دانشوروں نے (جن کی باگیں ماسکو اور کبھی چین سے کھینچی جاتی تھیں ) شاعری، ادب، دیگر فنون اور ثقافت وغیرہ کو دائیں اور بائیں بازو میں بانٹ کر کیا۔ تاریخ ایسی خطرناک غلطیوں سے بھری پڑی ہے، یہ فہرست اتنی طویل ہے کہ اس پر بات شروع کریں تو مارکسی مغالطے نام سے ایک کتاب بن سکتی ہے۔
انقلاب روس کے فوراً بعد ہی یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ ثقافت اور ادب کے بارے میں روسی انقلابیوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ ایک گروہ جذباتیت میں کہتا پھرتا تھا جب بورژوا (سرمایہ دار طبقہ کی) ثقافت ہو سکتی ہے تو پرولتاری (محنت کش طبقے کی) ثقافت بھی ہونی چاہیے۔ محنت کشوں کا اپنا آرٹ، اپنا ادب، اپنی ثقافت ہونی چاہیے۔ ان کی یہ نام نہاد تقسیم ایک میکانکی سوچ کا نتیجہ تھی جس کا مارکسی طریقہ کار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
انقلاب ابھی نومولود ہی تھا جب لینن کی وفات کے بعد یہ گروہ اقتدار پر قابض بھی ہو گیا۔ لینن کے قریبی ساتھیوں اور انقلابِ روس کے قائدین نے اس گروہ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا بھی مگر اقتدار کی ہوس اور مارکسی طریقہ کار سے نابلد ہونے کی وجہ سے کچھ کو انقلابی غدار اور انقلابی مرتد جیسے الزام لگا کر جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا کچھ کو موت کے گھاٹ اتار کر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی گئی۔ بات حُبِ علی سے بڑھ کر بُغضِ معاویہ تک پہنچی تو ان کی تحریروں کو نہ صرف تلف کر دیا گیا بلکہ روس میں ان کے خیالات کی ترویج پر پابندی لگا دی گئی۔
محنت کش ریاست افسرشاہی ریاست میں بدل گئی۔ روس معاشی اور ثقافتی طور پر بہت پسماندہ ملک تھا مگر منصوبہ بند معیشت کی بدولت روس طاقتور یوروپ اور امریکہ کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ اس چکا چوند ترقی سے بظاہر یہی لگا کہ سوشلزم وہی نظام ہے جو روس میں کامیاب ہے جبکہ نہ تو یہ سوشلزم تھا اور نہ کامیاب۔ دنیا بھر کے مزدور راہنما، تحریکیں، بائیں بازو کے دانشور مارکسی طریقہ کار اور سوشلزم کو سمجھنے کی بجائے ہر فیصلے کے لیے ماسکو کی طرف سجدہ کرتے تھے۔ خود پاکستان میں ایک دور میں مارکسی لٹریچر تک ماسکو سے چھپ کر آیا کرتا تھا۔
ان حالات میں منٹو پر ترقی پسندوں کی طرف سے دباؤ قابلِ فہم ہے اور منٹو کا خود کو کسی بائیں بازو سے دور رکھنا بالکل درست قدم تھا۔ کسی فنکار اور یا ادیب کا سیاسی رحجان اس کا ذاتی فعل ہے۔ وہ اپنے ادب میں معاشی نا انصافی دکھائے یا محبوب کی بے رُخی اس کی اسے مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ منٹو سچا لکھاری تھا۔ اس نے جو محسوس کیا وہ لکھ ڈالا۔ انقلابیوں کا ادب کی طرف کیا رجحان ہونا چاہیے یہ ہم الگ کسی مضمون میں زیر بحث لائیں گے مگر قارئین کے لیے اتنا بتانا ضروری ہے کہ دلیل یہ تھی کہ روس کا ادب اور آرٹ مغرب کے مقابلے میں بہت پیچھے تھا جس کا محور کسان جاگیردار اور بیوروکریسی تھی۔
انقلاب کے فوری بعد کچھ انقلابی محنت کشوں نے ادب کے میدان میں پنجہ آزمائی کی اور کچھ ادیب انقلاب سے متاثر ہو کر اس کے بارے لکھنے لگے مگر دونوں کا ادب مغربی ادب کے مقابلے بہت ناپختہ تھا۔ دلیل یہ تھی کہ بجائے نیا ادب تخلیق کرنے کی بجائے عوام کو پہلے سے موجود ادب اور آرٹ سے روشناس کرایا جائے۔ ادیب اور فنکار چاہے انقلاب کے حق میں لکھیں یا پرانے جاگیرداری نظام کے گرد کچھ تخلیق کریں دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر مکمل آزادی دے دی جائے۔ فی الحال اتنے وسائل پیدا کیے جائیں کہ عوام تک نہ صرف ادب اور آرٹ بلکہ سائنس تک دسترس میسر ہو۔ جب ایک بہتر چیز دستیاب ہے تو نئے سرے سے بنانے کی بجائے دوسروں تک اس کی دسترس یقینی بنائی جائے۔ مگر کیا کریں صرف ذہنی نابالغ ہی نہیں ہوتے، سیاسی نابالغ بھی ہوتے ہیں۔