ڈاکٹر خالد سہیل
میری ایک ادیبہ دوست مہ رخ کا خط آیا کہ میں آپ سے ایک نفسیاتی مشورہ کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے پوچھا نفسیاتی مسئلہ کیا ہے؟ کہنے لگیں میں حد سے زیادہ حساس ہوں۔ میں جب فیس بک پر کسی کی بیماری کی خبر پڑھتی ہوں یا ٹی وی پر کسی کی موت کی خبر سنتی ہوں تو بہت پریشان ہو جاتی ہوں۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ میں پسینے میں شرابور ہو جاتی ہوں۔ میری بھوک مر جاتی ہے، نیند اڑ جاتی ہے اور میں دو تین دن کے لیے بالکل بیکار ہو جاتی ہوں۔
پھر اس بحران سے چند دن کے لیے باہر نکلتی ہوں زندگی سے محظوظ ہوتی ہوں اور پھر کوئی اور خبر یا حادثہ مجھے پریشان کر دیتا ہے۔ یہ مسئلہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ میں نے کبھی کسی سے اس مسئلے کا ذکر نہیں کیا۔ آپ سے دوستی ہوئی تو ہمت ہوئی کہ آپ کو اپنا مسئلہ بتاؤں اور مشورہ کروں؟ میں انٹرنیٹ اور فیس بک پر لکھتی بھی ہوں لیکن جب کوئی قاری تنقید کرتا ہے تو گھبرا جاتی ہوں۔ میں نے ’ہم سب‘ پر آپ کے کالم بھی پڑھے ہیں۔ آپ پر لوگ سخت تنقید کرتے ہیں لیکن آپ سب کچھ مسکرا کر برداشت کر لیتے ہیں۔ اس مسکراہٹ کا کیا راز ہے؟ مجھے بھی بتائیں۔
میں نے سوچا مہ رخ کو ذاتی خط لکھنے کی بجائے ایک کالم لکھوں کیونکہ یہ مسئلہ صرف مہ رخ کا ہی نہیں بہت سے اور مردوں اور عورتوں کا بھی ہے جو اس نفسیاتی مسئلے سے بہت پریشان رہتے ہیں اور وہ میرے کالم سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
میں نے پچھلے تیس برسوں میں اپنے کلینک میں حد سے زیادہ حساس شخصیت رکھنے والے لوگوں کی کامیاب تھیریپی کی ہے۔ میں ایسے لوگوں کو HIGHLY SENSITIVE PERSONALITY کہتا ہوں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت کے دو پہلو غور طلب ہیں۔
پہلا پہلو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی اکثریت احساسِ کمتری کا شکار ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ دوسرے لوگوں کی رائے کا دل پر بہت گہرا اثر لیتے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان لوگوں کی ایک کثیر تعداد ایسے شدت اور تشدد پسند گھرانوں میں پلی بڑھی ہوتی ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے۔ ان میں سے بعض Post Traumatic Stress Disorder کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔
ایک وہ زمانہ تھا جب ماہرینِ نفسیات یہ سمجھتے تھے کہ صرف میدانِ جنگ سے لوٹنے والے فوجی ہی پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن اب ماہرین یہ جان گئے ہیں کہ وہ بچے جو ایسے خاندانوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں جن میں ان کے والدین ایک دوسرے سے روز لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں ’غصے اور نفرت کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں‘ ایک دوسرے سے تلخ کلامی کرتے ہیں اور ہاتھا پائی کرتے رہتے ہیں ایسے بچے بھی بڑے ہو کر پی ٹی ایس ڈی کا شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی ایک خانہ جنگی کی آزمائش سے گزر کر آتے ہیں۔
جب بچے محبت کرنے والے ماں باپ کو لڑتے جھگڑتے دیکھتے ہیں تو ان کے اندر عدمِ تحفظ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کچھ بچے چیخنے چلانے کی آوازوں سے سہم جاتے ہیں ڈر جاتے ہیں خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جوان ہو کر گھر سے دور چلے جانے کے باوجود ان کے دل کا خوف نہیں جاتا۔
میں ایسے حد سے زیادہ حساس شخصیت والے مردوں اور عورتوں سے بھی ملا ہوں جن کا خاندان صحتمند اور پر سکون تھا لیکن وہ کسی ایسے رومانوی اور ازدواجی رشتے میں داخل ہو گئے تھے جہاں ان کی عزتِ نفس بہت مجروح ہوئی اور ان کی نہ صرف تذلیل کی گئی بلکہ انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ کچھ زخم جسم پر تھے جو مندمل ہو گئے لیکن ان جسمانی زخموں سے زیادہ گہرے زخم دل اور ذہن کے زخم تھے جو مندمل نہ ہو سکے۔ انہوں نے جس محبوب یا رفیقِ حیات پر اعتماد کیا تھا اس نے ان کے اعتماد کو اتنی ٹھیس پہنچائی کہ وہ ٹوٹ کر بکھر گئے اور نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے۔ بحران سے نکلنے کے بعد وہ حد سے زیادہ حساس ہو گئے اور ان کی نفسیاتی قوتِ مدافعت بہت کم ہو گئی۔
تھیریپی کے دوران میں ایسے مردوں اور عورتوں کو چند مشورے دیتا ہوں۔ آپ بھی سن لیں
پہلا مشورہ یہ کہ عارضی طور پر وہ ایسے پریشان کن فیس بک ’ٹی وی اور سوشل میڈیا سے دور رہیں جو انہیں TRIGGER کرتے ہیں۔
دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ایک ڈائری رکھیں اور اس میں حال اور ماضی کی زندگی کے اہم واقعات اور حادثات رقم کریں۔ ایسا کرنے سے ان کا کیتھارسس ہو جاتا ہے۔
تیسرا مشورہ یہ ہے کہ ایسے کاموں میں مشغول ہوں جو انہیں فرحت اور مسرت دیتے ہیں۔ میری ایک دوست جب پریشان ہوتی ہیں تو ریڈیو اور ٹی کے مذاہیہ پروگرام سن کر مسکراتی ہیں۔
چوتھا مشورہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے ملیں جو ان کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔
میں نے اپنی دوست مہ رخ سے کہا کہ وہ خود تو سونا ہیں لیکن ان کے گرد بہت سے لوہار جمع ہو گئے ہیں جو ان کے سونے کی قدر نہیں جانتے۔ میں نے مشورہ دیا کہ وہ لوہاروں کو چھوڑ کر سناروں سے دوستی کریں جو ان کی قدر و منزلت جانتے ہوں۔
پانچواں مشورہ یہ ہے کہ اگر دوستوں کی مدد ناکافی ہو تو پھر انہیں ایک ہمدرد تھیریپسٹ تلاش کرنا چاہیے جو ان کی دکھی زندگی کو سکھی زندگی میں بدلنے میں مدد کر سکے۔
میں اپنے مریضوں کو یہ بھی بتاتا ہوں کہ انہیں اپنے دائرہِ اختیار کا تعین کرنا ہوگا۔ میں اسے AREA OF INFLUENCE کہتا ہوں۔ جو لوگ اس دائرے کے اندر رہتے ہیں وہ نفسیاتی طور پر طاقتور ہوتے ہیں۔ جب وہ اس دائرے سے باہر نکلتے ہیں تو کمزور و ناتواں محسوس کرنے لگتے ہیں اور ان کی حد سے زیادہ حساسیت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
میں انہیں ذاتی مثال دیتا ہوں۔ ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناتے میرے دائرہِ اختیار میں میرا کلینک اور میرے مریض شامل ہیں۔ میں ان مریضوں کا علاج کر کے اور ان کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتا ہوں۔ میں ساری دنیا کے سات ارب انسانوں کی بجائے ہر روز سات مریضوں کا خیال رکھتا ہوں۔
اسی طرح ایک لکھاری ہونے کے ناتے میں ’ہم سب‘ پر ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں تا کہ عوام کو نفسیاتی مسائل کے بارے میں آگاہ کر سکوں اور ان کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے میں ان کی مدد کر سکوں۔ ایسا کرنے سے مجھے ذہنی خوشی اور تخلیقی مسرت ملتی ہے۔ اگر چند قاری میرے خیالات یا نظریات سے ناخوش بھی ہوتے ہیں تو میں ان کی رائے یا تنقید کو دل پر نہیں لیتا۔ انہیں مجھ سے اختلاف کا پورا حق ہے۔ میں ’ہم سب‘ کے قارئین سے بہت کچھ سیکھتا ہوں اور ان کے اعتراضات کا مودبانہ جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
میں نے اپنی ادیبہ دوست مہ رخ سے کہا کہ وہ ان مخلص اور محبت پیار کرنے والے گرین زون دوستوں کے قریب رہیں جو انہیں سکھی کرتے ہیں اور ایسے کم ظرف ’غصیلے اور متعصب ریڈ زون لوگوں سے دور رہیں جو انہیں دکھی کرتے ہیں۔ وہ جب فیس بک یا انٹرنیٹ پر لکھتی ہیں اور قارئین سے مکالمہ کرتی ہیں تو انہیں احساس ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر لکھاری اور قاری کا اختلاف ذاتی نہیں نظریاتی ہے۔ ایسا سوچنے سے وہ دلبرداشتہ نہیں ہوں گی۔
میں نے پچھلے کئی سالوں میں بہت سے مردوں اور عورتوں کو اپنی حد سے زیادہ حساس شخصیت پر قابو پاتے اور ایک صحتمند ’خوشحال اور پرسکون گرین زون زندگی گزارتے دیکھا ہے۔