عبدالحلیم
گوادر کا شاہی بازار کسی زمانہ میں اپنی اہم تجارتی اور زندگی کی رمق آموز رعنائیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا لیکن وقت کے تیز و تند تھپیڑوں نے شاہی بازار کی رعنا ئیوں کے رنگ کو اب بے رنگ کر دیا ہے۔ لیکن اس میں ایسی متعدد باقیات اب بھی موجود ہیں جو اجڑتے ہوئے شاہی بازار گوادر میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتی اور ماضی کے رنگوں کی یاد دلاتی ہیں۔ ان باقیات میں سے ایک ناکو عیدو ریڈیو ساز کی دکان بھی ہے۔
ناکو عیدو نے اپنے اس ہنر کا آغاز ہماری یاداداشت سے قبل کیا۔ کیونکہ جب ہم آغا خان اسکول میں پڑ ھنے جاتے تھے تو شاہی بازار کی پررونق گلیاں ہمارا رستہ ہوا کرتی تھیں اوران رستوں میں عیدو ریڈیو ساز کی دکان بھی پڑتی تھی۔ دکان میں بیٹھا ہوا بزرگ شخص پرانے اور ہر قسم کے ریڈیو کے پرزے جوڑتے ہوئے نظر آتا تھا۔ اس منظر کو کئی برس بیت چکے ہیں لیکن ناکو عیدو کا ہنر ہنوز جاری ہے۔
ہمارے مہربان دوست اور ناکو عیدو کے بیٹے نور (نور کمیونیکیشن گوادر والے) کہتے ہیں کہ ان کے والد بزرگوار کا یہ ہنر گزشتہ 50 سالوں سے جاری ہے. اُن کے والد ریڈیو بنانے کے ساتھ ساتھ گھڑیوں کی بھی مرمت کرتے تھے، لیکن بینائی متاثر ہونے پر اب وہ گھڑیوں کی مرمت نہیں کرتے لیکن ان کے ریڈیو سازی کا ہنر اب بھی جاری ہے۔ نور نے حال ہی میں اپنے والد کی دکان کی مرمت بھی کی ہے۔
پتہ نہیں اب روزانہ کتنی تعداد میں لوگ ریڈیو مرمت کر نے کے لیے لاتے ہوں گے کیونکہ برق رفتار اور تیزی سے سرایت کرنے والی ڈیجیٹل ایج نے ماضی کے الیکٹرونک آ لات کی قدرومنزلت اور استعمال کی اہمیت کو بہت ہی کم کر دیا ہے۔ ریڈیو ہو یا دیگر الیکٹرونک آلات، اُن کی جگہ اب جدید ٹیکنالوجی سے بنائے گئے آلات نے لے رکھی ہے۔ سمارٹ فون اور جدید قسم کے آلات نے ریڈیو کو شاید سامعین کے دل سے نکال بھی دیا ہوگا۔
لیکن اجڑتے ہوئے شاہی بازار میں ناکو عیدو کی دکان اب بھی قائم ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریڈیو سے لگاؤ رکھنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔ آ کاش وانی، معلوماتی اور نغمے نشر کرنے والے دیگر ریڈیو اسٹیشنز اور نایاب رہ جانے والے گانوں کے البم سننے والوں کی کمی نہیں ہوگی۔
یہ ہمارے لڑکپن اور جوانی کا دور ہے کہ ہم دوستوں کے جھرمٹ میں کریمُک ہوٹل میں عابد رحیم سہرابی کی رہنمائی میں بی بی سی کا پورا پروگرام ریڈیو پر سنتے تھے۔ اسی طرح ایک بزرگ شخص عبدالرحمان عرف جاڑو بھی اپنے کندھے پر ریڈیو لٹکاتے ہوئے ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ کوئی اور نہ ہی سہی عابد رحیم سہرابی اور جاڑو کے ریڈیو سننے کا مشغلہ اب بھی باقی ہے، جو شاذو و نادر ہی ریڈیو پر بی بی سی اور دیگر پروگرام سننے کا موقع مس کر تے ہوں گے۔
اسی طرح بہت سے اور لوگ بھی ہوں گے جن کا ریڈیو سے رشتہ اٹوٹ بندھن کی طرح ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو شاید ناکو عیدو کی دکان بھی کب کی شاہی بازار کی دیگر دکانوں کی طر ح ڈھ کر کھنڈر بن جاتی۔ ان کھنڈروں میں موجود ناکو عیدو کی دکان ریڈیو سننے والوں کے شوق کی غمازی کرتی ہے۔
شاہی بازار گوادر شہر کی قدیم ثقافتی، معاشرتی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کا آئینہ دار ہے۔ ناکو عیدو کی دکان نے اپنے سامنے کئی نسلوں کو جوان، ادھیڑ عمر اور بوڑھے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ناکو عیدو کی دکان کی طرح ابراہیم پان والے، خدابخش حلوائی کی دکان اور کریمُک ہوٹل کئی سنہرے دور کی ترجمانی کرتے ہیں، جنہوں نے اب تک ماضی کے تھپیڑوں کو شاید اس لیے برداشت کیا ہے کہ گوادر کی تاریخ کو دوبارہ زندہ رکھنے کے لیے کسی کو دقت پیش نہ آئے۔
ناکو عیدو سلامت رہیں۔
(نوٹ) بشکریہ حال احوال