بریگیڈئیر (ر)فیصل مسعود
جیسا کہ کسی گزشتہ مضمون میں میں نے عرض کیا تھا کہ بچپن میں مجھے بھی کسی اخبار یارسالے کا مدیر بننے کا شوق لاحق تھا۔ میری والدہ مرحومہ مگر چاہتی تھیں کہ میں ڈاکٹر یا انجینئر بنوں۔ آٹھویں جماعت میں جب پیچیدہ سائنسی مضامین سے واسطہ پڑا تو میرا ہاتھ تعلیمی کاکردگی میں تنگ پڑنے لگا! ستر کے عشرے میں عطا محمد اسلامیہ ہائی سکول گوجرانوالہ میں داخلہ حاصل کرنا بڑے اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا۔ قبل از قیامِ پاکستان رئیسانِ شہر کی غیر سرکاری انجمن کے تحت قائم شدہ ہمارا سکول پر شکوہ تاریخی عمارت اور شاندار تعلیمی رکارڈ کے حامل ادارے کے طور پر جانا جاتا تھا۔
صبح کی اسمبلی پورے اہتمام و دبدبے سے منعقد ہوتی جس کے فوراً بعد جب کلاسز میں تدریسی عمل شروع ہوتا تو سکول کے دراز قامت، با رعب ہیڈ ماسٹر قاضی منور صاحب پتلون اورسفید بشرٹ میں ملبوس اپنے مخصوص سٹاف کے جلومیں دو اطراف قطار اندر قطار کلاس رومز کے بیچوں بیچ خراماں خراماں گزرتے۔ کمرے میں استاد کے بولنے کی آواز کے علاوہ سکول کی فضا پر طاری مکمل سناٹے کے دوران ہم قاضی صاحب کے جلوس کو قدیم عمارت کی کھڑکیوں کے پار کن اکھیوں سے دیکھتے۔
اتفاق سے قاضی صاحب میری والدہ کے ماموں زاد بھائی اور میرے والد کے ہم جماعت بھی تھے۔ کبھی بھولے سے سامنا ہوتا تو ایک لمحے کو ان کی آنکھوں میں شناسائی کی جھلک نظر آتی مگر پھر وہی بے اعتنائی۔ کبھی مجھے جرآت نہ ہوئی کہ اپنے کسی استاد سے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے قرابت داری کا ذکر کروں! ایک بار میرے ایک استاد نے پرچے پر کچھ لکھ کر مجھے تھمایا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو دے کر جواب لے آؤں۔ دفتر میں داخلے کی بمشکل اجازت ملی۔
دفتر کے اندر اپنی وسیع و عریض میز کے اس پار سے قاضی صاحب نے پرچہ میرے ہاتھ سے لیا اور پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ اس دوران میں میز پر ایک ہاتھ ٹیک کر کمرے میں دھری الماریوں میں سجائے گئے ٹرافیوں اور دیگر انعامات کو دیکھنے میں محو تھا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے کڑک دار آواز میں مجھے میز سے ہاتھ ہٹا کر سیدھا کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ سکول میں گزرے سالوں میں میری یہ ان سے پہلی اور آخری بالمشافہ ملاقات تھی۔
آٹھویں جماعت کے دوران ہی مجھے ادراک ہو چلا تھا کہ میں زندگی میں کچھ بھی بن سکتا ہوں ماسوائے ان شعبوں کے کہ جہاں انسان کا پالا کیمسٹری اور الجبراء جیسے مضامین سے پڑھتا ہو۔ نویں جماعت میں ہمیں سائنس اور آرٹس مضامین میں سے انتخاب در پیش ہوا تو مجھے ’آرٹس والی کلاس‘ میں بیٹھنے کا حکم ملا۔ میری والدہ کو پتا چلا تو انھوں نے شور مچا دیا کہ آرٹس پڑھ کر زندگی میں کیا بنے گا۔ والد صاحب نے ان سے وعدہ کیا کہ قاضی صاحب سے بات کر کے مضامین بدلوانے کی کوشش کریں گے۔
چند ایک ہفتوں کے بعد مجھے ’سائنس سٹوڈنٹس‘ کی کلاس میں بیٹھنے کا بلاوا آگیا۔ مجھے بہت عرصہ بعد معلوم ہوا کہ میرے والدین کی میرے مضامین تبدیل کروانے کی جستجو میں تنہا قاضی صاحب حائل رہے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق میں آرٹس مضامین میں بہت بہتر کارکردگی دکھا سکتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہم لاہور چلے آئے تو ایک دن قاضی منور صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ خدا ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
میٹرک میں سائنس مضامین میں حسبِ توقع کار کردگی کی بنیاد پر میں گورنمٹ سائنس کالج وحدت روڈ لاہور میں فرسٹ ائیر کے اختیاری مضامین کی طرف لوٹ آیا کہ جن سے مجھے قدرتی لگاؤ تھا، یعنی اردو اعلی، پولٹیکل سائنس اور تاریخ۔ بدقسمتی سے سائنس کالج میں اپنے تمام اساتذہ میں سے مجھے اردو اعلی کے استاد جناب فیضی صاحب ہی یاد رہ گئے ہیں۔ دبلی پتلی ساخت اور زردی مائل سفید رنگت، سیاہ شیروانی اور سفید کھلے پائینچے کے پاجامے میں ملبوس فیضی صاحب میرے پسندیدہ استاد تھے کہ جن سے میں نصاب کے علاوہ بھی کھل کربات چیت کر لیا کرتا۔
ایک مرتبہ میں نے فیضی صاحب سے اپنے مدیر بننے کے ارادے کا اظہار کرتے ہوئے کالج میں ایک پندرہ روزہ کے اجراء کی تجویز دی۔ فیضی صاحب مجھے شفقت سے برتتے لہذا خاموش رہے۔ تاہم کچھ توقف کے بعد مجھے پرنسپل صاحب کے حضور تجویز پیش کرنے کو کہا۔ میں پورے خلوص سے اپنی تجویز لے کر پرنسپل صاحب سے ملنے پہنچا۔ پرنسپل صاحب سے تو ملاقات نہ ہو سکی تاہم ان کے دفتر سے متصل کمرے میں بیٹھے ان کے سٹاف کو جب میں ملاقات کا مدعا اور مجوزہ پرچے کا اجمالی جائزہ پیش کر رہا تھا تو سبھی کانوں میں قلم اڑسائے آنکھیں پھاڑے مجھے گھورتے رہے۔
بزمِ ادب کے تحت کالج کے طلبہ کے لیے مقابلہ سخن گوئی کا اعلان ہوا تو میں نے فیضی صاحب سے مقابلے میں شمولیت کی اجازت طلب کی۔ آپ علی الصبح چائے کی پیالی دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے دفتر کے سامنے والے لان میں کرسی بچھائے دھوپ سینک رہے تھے۔ بولے، ’بیٹا آپ ایک با صلاحیت نوجوان ہو۔ دنیا میں مگر شاعری کے علاوہ بھی بہت سے مفیدکام ہیں‘ ۔ فیضی صاحب کی اس نصیحت کے بعد میں زندگی بھر شاعری کے نزدیک نہیں پھٹکا۔
پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی تو پھر پلٹ کر پہلی محبت اور ٹوٹے ہوئے خوابوں کو لوٹ کر نہیں دیکھا۔ کوئٹہ پوسٹنگ کے دوران ایک مرتبہ چھٹی گزارنے لاہور آیا تو سائنس کالج کے پرانے اساتذہ کو ملنے چلا آیا۔ جنرل ضیا کے مارشل لاء کا دور تھا، پرنسپل کے دفتر سے متصل کمرے میں بیٹھے کلرکوں سے لے کر کئی ایک اساتذہ گرم جوشی سے ملے اور آتے جاتے رہنے کی تلقین کے علاوہ برضا و رغبت میرا پتہ اپنی اپنی ڈائریوں میں درج کیا۔ فیضی صاحب سے ملنے ان کے دفتر حاضر ہوا تو حسبِ معمول بے حد شفقت سے پیش آئے۔ میں نے خود ہی بتایا کہ فوج میں افسر ہو چکا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد میں نے رخصت لی تو دعا دی۔ فیضی صاحب نے مجھ سے میرا رینک تک نہ پوچھا۔ یہ میری ان سے آخری ملا قات تھی۔
ٓآج کئی برسوں کے بعد خواہ مخواہ فیضی صاحب یاد آگئے۔ یہ نہیں کہ سب اساتذہ فیضی صاحب کی طرح با اثر عہدوں پر پہنچنے والے اپنے شاگردوں سے اسی طرح بے اعتنائی برتتے ہیں۔ ہاں مگر بہت سے ایسے بھی ہوتے ہوں گے کہ جن کی ڈائریاں حکومتی اکابرین، دولت مند گھرانوں، اور سیاسی خانوادوں کے راجکماراور راجکماریوں کے نام پتوں سے بھری ہوتی ہوں گی، کہ گزرے سالوں جو کبھی ان کے کلاس روم میں کبھی قدم رنجا ہوئے ہوں اور جن کو با لحاظ مقام و رسوخ، محبت سے لپک کراستادِ محترم نے اپنا شاگرد قرار دے لیا ہو۔
ہمارے معاشرے میں کہ جہاں قاضی صاحب اور فیضی صاحب جیسے بے لوث اساتذہ جیتے ہیں تو وہیں کئی چالاک، چرب زبان عمرو عیّار بھی تو پھرتے ہوں گے۔ معاشرے کی نبض اور رگ رگ سے واقف جو غربت سے اٹھے اور غلام گردشوں میں پہنچے۔ زندگی شاہ کی مصاحبی میں گزاری مگر کسی ایک طلسمی لمحے میں جھپک کر استاد کا چوغہ اوڑھ لینے کے فن میں یکتا۔
لاہور کے مال روڈ پر آئے روز جب بھی اساتذہ کو پولیس کی واٹر کنین میں دھلتے، لا ٹھیوں سے پٹتے اور بھیڑ بکریوں کی طرح ٹرکوں میں لادے جاتے دیکھا توہمیشہ ملال ہوا۔ دکھ اور بڑھ جاتا جب اپنے بابا جی کا وہ قصہ دہرایا جاتا کہ جب وہ اتفاقاً اٹلی کی ایک عدالت میں عین اس وقت موجود تھے جب ایک ملزم کے آتے ہی جج صاحب اپنی کرسی پر احتراماًکھڑے ہو گئے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا تھا کہ ملزم ایک استاد ہے۔
ساری عمر اس تاسف میں گزری کہ ہمارے ہاں اساتذہ سے تکریم کا ایساسلوک رواکیوں نہیں رکھاجاتا۔ چند روز سے مگر میں بہت خوش ہوں کہ ایک استاد کی تضحیک کے بعد اپنی قوم حکمرانوں کے سامنے جیسے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ دو چار روز سے مجھے یقین ہو چلا ہے کہ جو مرتبہ اور مقام استاد کو ہمارے ہاں حاصل ہے، اس کی مثال دنیا میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ اٹلی میں بھی نہیں!