جب آپ کسی بھی راے پر درست اور غلط کے مخمصے میں پھنس جاتے ہیں تو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے تئیں چیزوں کو پہلے سے ہی درست اور غلط ٹھرا لیا ہوتا ہے جس کی بنیادی وجہ درحقیقت آپ کی اپنی قائم کردہ ”توقعات“ ہوتی ہیں یعنی ایسا ہونا چاہیے۔ ویسا ہونا چاہیے۔ یہاں آپ درحقیقت اپنے مخصوص تناظر ہی کو درست متعین کر لیتے ہیں اور اپنی خوشی کے لیے بعض چیزوں کو غلط اور بعض کودرست قرار دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ سراسر ایک حماقت ہو سکتی ہے کیونکہ اس تناظر میں غلط اور درست کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ اس صورت میں بعض غلط چیزوں کو بھی آپ درست سمجھ لیتے ہیں اور بعض درست چیزوں کو غلط۔
چنانچہ ہر معاملے میں درست اور غلط کے ایشو (issue) پر سیاہ یا سفید۔ ہاں یا نہیں۔ دائیں یا بائیں ہی پر اصرار سے بہتر ہے کہ پہلے اچھی طرح معاملے کی نوعیت کو جانچ لیجیے۔ اگرچہ چند چیزیں ایسی بھی ہیں جن میں واضح طور پر درست یا غلط کی تخصیص کی جا سکتی ہے لیکن بہت سے معاملات۔ بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر درستی کے اطلاق میں ایک سے زیادہ راے بھی مناسب اور قابلِ قبول ہوسکتی ہیں۔ اور زیادہ تر ایسی ہی چیزوں پر بحث و مباحثہ کرنے اور اپنے مخصوص تناظر ہی کو درست ثابت کرنے کی کوشش سے گریز کی راہ اختیار کرنا آپ کے تعصب کو جڑ سے اکھاڑنے میں مدد گار ہو گا۔
اپنی سوچ کے اس کمزور خطے سے نکلیے کہ اگر آپ ہی کی راے کو تسلیم کیا جاے تو ہی آپ معتبر ہوں گے اور ایسے معاملات پر اپنی برتری ثابت کرنے کی بجاے معتدل اور درست رویہ اپنایے یعنی دوسروں پر اپنی راے مسلط کرنے کی خواہش کو ترک کرتے ہوے ان کی مختلف راے کا بھی احترام کرنا سیکھیے۔
مختلف فیصلوں اور ان کے نتائج کے متعلق سوچیے اور ان کے غلط یا درست ہونے پر ہی فوکس کرنے کی بجاے اس کے مختلف ہونے کے امکان کو بھی ذہن میں رکھیے۔
ہمیشہ یاد رکھیے کہ ہر انسان کو یہ پورا حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہتا ہے انتخاب کرے، خواہ آپ اس پر کتنا ہی کڑھتے رہیں۔ ایسے معاملات میں۔ وہ عمل ضرور اپنائیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے طے کرنا چھوڑ دیں کہ انہیں کیا اپنانا چاہیے۔
بسا اوقات ہم نا صرف خود تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تعصب میں مبتلا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔
ایسا عموما اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی بھی معاملے میں مزاحمت کو درست طریقے سے ہینڈل نا کریں۔ کسی بھی معاملے پر اختلاف کرتے ہوے آپ کے رابطے یا رویے میں لچک کا نا ہونا بھی آپ کی شخصیت اور معاشرے میں تعصب کو فروغ دیتا ہے۔ اپنی راے پیش کرتے وقت آپ کا اسلوب، گفتگو اور مکالمے کا انداز ہی اکثر و بیشتر مزاحمت کی بڑی وجہ بن جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں آپ مثبت الفاظ یا تراکیب کا استعمال کرتے ہوے بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر سکتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ ایسی صورت میں آپ کا دوسرے فرد کی راے سے متفق ہونا ہی لازم نہیں بلکہ آپ مختلف راے رکھنے کے باوجود بھی کسی فرد کے احساسات کو سراہ سکتے ہیں، اسے احترام تو دے سکتے ہیں اس سے آپ کے اندر خود کو پرفیکٹ سمجھنے کی نفسیات کا بھی خاتمہ ہو گا۔ مثال کے طور پر کوئی شخص آپ سے یہ کہتا ہے کہ ”تم سراسر غلط ہو“، تو اس کے جواب میں یہ کہنے کی بجاے کہ ”نہیں میں غلط نہیں ہوں“، آپ اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں ”میں اس بارے میں آپ کے جذبات کوسمجھتا ہوں اور ان کی قدر کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ میرا موقف بھی سن لیں تو شاید آپ کو کچھ مختلف محسوس ہو“۔
یا آپ بات کرتے ہوے دوسرے لوگوں کی نیت پر حملہ آور ہونے کی بجاے اسے سراہتے ہوے اپنا موقف پیش کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ خود کو صرف اپنی راے کے خول میں مقید کرنے کی بجاے دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے بھی آمادہ کر سکتے ہیں۔ یہ عمل آپ کو تعصب سے محفوظ رکھنے کا ایک بہترین نسخہ ثابت ہو سکتا ہے اگر آپ ایمانداری کے ساتھ دوسرے لوگوں سے حسنِ ظن رکھنے کی عادت کو اپنی شخصیت میں راسخ کر لیں۔