مظہر حسین بودلہ
قریب دو ماہ قبل اک نوجوان کی ویڈیو انٹر نیٹ کے توسط سے دیکھی جس میں وہ جوان کا بچہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر مشت زنی میں مصروف ہے۔ ویڈیو تھوڑی مزاحیہ بھی لگی اور معاشرے میں موجود گھٹن کے اس حد تک بڑھ جانے کا افسوس بھی ہوا۔ اگر اک طرف دیکھا جائے تو یہ انسان کو انسان نہ رہنے دینے کا وہ جبر ہے جو ٹوٹنا چاہتا ہے اور شلوار اتارے چوک میں آن کھڑا ہوا ہے لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ صریح فحاشی بھی ہے کیونکہ وہ نوجوان صرف چوک میں مشت زنی کرنے کے لئے ہی موجود نہ ہوتا تھا بلکہ جس راستے پر کھڑا ہوکر وہ یہ کار لذت انجام دیتا تھا وہ اک گرلز کالج کا راستہ ہے اور نوجوان چھٹی کے وقت باقاعدہ لڑکیوں کو دیکھ کر اور ان کو باور کروا کر یہ عمل کرتا تھا۔ اب ایسے میں ظاہر ہے کئی خواتین جانے انجانے میں یہ معاملہ دیکھتی ہوں گی، کچھ لڑکیاں بالیاں دل ہی دل میں محظوظ بھی ہوتی ہوں گی لیکن فطری شرم کی وجہ سے صرف سہیلی کے کان میں کہہ کر کہ۔ وہ دیکھو کنجر کیا کر رہا ہے۔ شرماتی ہوئی نکل جاتی ہوں گی۔
وہاں سے فیملیز کا بھی گزر ہوتا ہوگا، کبھی کوئی ماں بیٹی گزر رہی ہے، کبھی کوئی باپ بیٹی گزر رہے ہیں، کبھی بہن بھائی گزر رہے ہیں تو کبھی دو بہنوں کا گزر ہو رہا ہے، ایسی صورت میں ظاہر ہے ان فیملیوں کی نظر اس عمل پر پڑتی ہوگی تو وہ شرم سے پانی پانی ہوجاتی ہوں گی۔ اگلے دن باپ اپنی بیٹی کو کالج چھوڑنے سے کتراتا ہوگا، ماں کہتی ہو گی بیٹی یہ راستہ بدل لیتے ہیں، بہن اپنی بہن سے شرمندہ ہوتی ہوگی تو بھائی سوچتا ہوگا کہ اس شخص کا منہ نوچ لیا جائے۔ لیکن ایسا کرنے پر ٹھیک ٹھاک تماشہ لگنے کے بھرپور چانسز دیکھ کر خاموش رہتا ہوا انجان بننے کی اداکاری میں نکل جاتا ہوگا۔
اسی موضوع پر اک مزاحیہ پوسٹ فیس بک پر چھاپی تو اک خدائی فوجدار بھائی نے اعتراض اٹھایا۔ ۔ ”میں پوری پوسٹ میں نکاح آسان کرنے کی تلقین ڈھونڈ رہا تھا مگر آپ نے صرف بے غیرتی ہی پھیلانی ہوتی ہے“۔ اک بار تو جسم اور جاں سلگ اٹھے۔ یہ بات اک ایسے طبقے کا انسان کر رہا تھا جن کے ہاں اکثریت دن میں سارا دن استغفار کرتی ہے جبکہ رات کو پورن دیکھ کر سوتی ہے، ایسے افراد کی اکثریت جب مجھ سے انباکس میں سوالات کرتی ہے تو مشت زنی کے فائدے اور نقصان پوچھتی ہے، اپنی کزن کو پھنسانے کے طریقے پوچھے جاتے ہیں، کسی ایسے ہوٹل کا پتہ پوچھا جاتا ہے کہ جس میں چھاپہ نہ پڑتا ہو۔
معاملہ اگر صرف یہیں تک محدود رہتا تو کوئی بات بھی تھی، مجھ سے سگی بہن کے ساتھ جسمانی تعلقات استوار کرنے کی تدابیر مانگی جاتی ہیں، بھانجا اپنی خالہ کو پیلنے کے مشورے لیتا پایا جاتا ہے تو پھوپھیاں اپنے بھتیجوں کو پھنسا کر پہلے خود بعد میں اپنی چار سہیلوں کے ساتھ مستی کرنے کے پلان ڈسکس کر رہی ہوتی ہیں۔ جہاں لڑکی اپنی پسند کی شادی کی بات کر لے تو اس کا باپ اسے طوائف مانتے ہوئے اپنا حصہ طلب کرنے لگتا ہے، جہاں بھائی کسی لڑکی کا ریپ کرے تو بدلے میں پورا خاندان اپنے گھر کی لڑکی اور اسی بھائی کی بہن کو خاندان کے سو افراد کی موجودگی میں متاثرہ لڑکی کے بھائی کے ساتھ ایک کمرے میں بھیجتے ہیں کہ آپ اپنا بدلے لے لیں اور پرچہ درج مت کروائیں۔ وہاں میں کیسے اور کس منہ سے نکاح آسان کرنے کی تدابیر لکھوں؟
میں اس معاشرے کا باسی ہوں کہ جہاں مذہبیت کوٹ کوٹ کر بھری تو ہے مگر۔ ! مذہب کی انتخابی نشان عمارتوں میں آئے روز کم سن بچوں کا ریپ ہونے کی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں، جہاں مذہبی ٹھیکیدار بچیوں کا ریپ کر کے ان کو بلیک میل کرتے پائے جاتے ہیں، جہاں نعتیں پڑھنے والے کم سن بچیوں کا ریپ کر کے ان کو قتل کرنے کے بعد کوڑے کے ڈھیر میں پھینکتے نظر آتے ہیں، جہاں گھٹن اس قدر زیادہ ہے کہ انسان تو انسان جانور بھی اس جنسی گھٹن کا شکار ہونے پر مجبور ہیں۔ گاؤں دیہات میں یہ تو محاورہ مشہور ہے۔ گدھی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ یہ وہ غیرت مند لوگ ہیں جن کے لئے عزت جان سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے لیکن ان کی پہلی معشوقہ اور اس معاملے میں استاد گدھی کہلاتی ہے اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ گدھی پورے گاؤں کی مشترکہ معشوقہ ہوتی ہے، بس ایک وقت میں ایک ہی شاگرد یا عاشق مستفید ہو تاکہ عزت بنی رہے۔
میں اس معاشرے میں پیدا ہوا ہوں جہاں اپنے گھر کی قبول صورت اور ان پڑھ لڑکی کے لئے ڈاکٹر، انجینیئر، پائلٹ یا کاروباری شخص درکار ہوتا ہے۔ لڑکے کا اپنا ذاتی گھر ہو، گاڑی ہو، اچھا خاصا کماتا ہو اور خوبصورت بھی ہو تب کہیں جاکر ہم اپنے گھر کی بہن بیٹی کا رشتہ کرنے کا سوچتے ہیں۔ مرد ہونے کی صورت میں ہمیں بہت ہی حسین، کم عمر اور ڈاکٹر لڑکی کا رشتہ درکار ہوتا ہے جو گھر میں بیٹھ کر گول روٹی بنا سکے، جسے دس پندرہ بچوں کے پیمپر باندھنے، ان کو پال پوس کر بڑا کرنے، گھر کے دس افراد کے کپڑے دھونے اور صفائی کرنے پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کنگلے اور مڈل پاس شخص کو دولت مند، پڑھی لکھی اور گونگی لڑکی درکار ہے تو قبول صورت میٹرک پاس لڑکی کو ویل سیٹلڈ لڑکا۔
ہم جہیز کے نام پر لاکھوں روپے طلب کر لیتے ہیں، لاکھوں روپے شادی کے کھانے اور دیگر اخراجات میں چاہیے ہوتے ہیں لیکن ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ شادی کو آسان کیا جائے۔ دوسری طرف انتہائی وجیہہ لڑکا درکار ہے، پڑھا لکھا ہو، اپنے باقی سات بہن بھائیوں کو مار کر اکلوتا ہونے کا ہنر جانتا ہو، نندیں اگر ہوں بھی تو مار دی جائیں کیونکہ ہمیں بہت مختصر فیملی ہی درکار ہے۔ حق مہر اتنا زیادہ لکھوایا جاتا ہے کہ اگر زوجین کی آپس میں نہیں بن پا رہی تو جان چھوٹنے کا کوئی راستہ نہ رہ پائے۔ اب ایسی صورت میں بد مزگی، پھڈے اور معاملات قتل تک چلے جاتے ہیں لیکن کیا کریں ہم بہت مذہبی اور غیرت مند ہیں، معاشرے میں ہو رہے کسی انوکھے واقعہ پر کوئی گستاخ لکھے بھی تو کیوں؟ کیا لکھاریوں کو شادی آسان کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے موت پڑتی ہے؟
سیکس ایک فطری طلب ہے، ہر انسان کا پیدائشی حق اور اک بھوک ہے، بالکل ویسی ہی بھوک جیسے کہ ہم روٹی کھاتے ہیں، ہر صحت مند انسان کو سیکس درکار ہے اور یہ صحت مند رہنے کا فارمولا بھی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جہیز، امیر لڑکے اور خوبصورتی کے چکر میں لڑکیاں چالیس سال تک گھر میں بیٹھی رہتی ہیں، لڑکے مشت زنی، لونڈے بازی، جانور بازی اور جسمانی خرید و فروخت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں جبکہ لڑکیاں انگلیوں اور سبزیوں پر لگی پڑی ہیں۔ لڑکے تو پھر بھی قدرے آزاد ہیں مگر لڑکیوں کا تو شادی کی رات باقاعدہ میٹر چیک کیا جاتا ہے کہ کتنا چلی ہے۔ اب ایسے میں معاشرے کے نوجوان مشت زنی اور انگلی بازی نہ کریں تو نفل پڑھیں؟
لڑکی کی شادی کی بات ہو تو اسے اس کی پسند کی شادی نہیں کرنے دی جاتی، گھر کا مالک باپ یا بھائی ہوتا ہے اور وہ اپنی پسند کا لڑکا ہی منتخب کرتا ہے، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اس بندے نے زندگی تو ان کی بیٹی یا بہن کے ساتھ گزارنی ہے لیکن اس کی پرفارمنس گھر کے مرد چیک کریں گے، وہ مرد ہے بھی یا نہیں، جیسا ہم چاہتے ہیں ویسے پرفارم کر سکتا ہے یا نہیں یہ سب بھی لڑکی کے بجائے گھر کے مالک مرد طے کرتے ہیں۔
بھائی اگر اتنی ہی ملکیت پسندی ہے تو آپ خود آپریشن کروا کر اس لڑکے کے ساتھ سیٹ کیوں نہیں ہو جاتے؟ یا ایسی حرکتیں بچپن میں ہوئی زیادتی کی وجہ سے ہیں؟ ، یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے مرد اپنے اندر موجود عورتانہ تاروں کی وجہ سے بہترین مرد ڈھونڈنے پر مجبور ہوں مگر اس سے استفادہ حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے بہن یا بیٹی کو اس کے کھاتے میں ڈال دیتے ہوں، شادی لڑکی کی، رہنا اس نے ہے، تمام معاملات، اچھائی اور برائی اس کے ساتھ ہونی ہے، سیکس اس نے کرنا ہے، بچے اس نے پیدا کرنے ہیں تسیں مامے لگدے او؟
انڈیا ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، وہاں آج کپلز لوونگ میں رہ رہے ہیں، غیر شادی شدہ جوڑے کچھ عرصہ ساتھ رہ کر اک دوسرے کی عادات دیکھتے ہیں، اک دوسرے کا صبر دیکھتے ہیں، شادی کے بارے میں ثابت قدمی دیکھتے ہیں اور اگر کوئی پارٹنر یہ سمجھتا ہے کہ آگے چل کر ہم اک مثالی جوڑا نہیں بن سکتے تو وہ ہنسی خوشی الگ ہو جاتے ہیں۔ وہاں ہر موضوع پر کھل کر لکھا جاتا ہے، شارٹ فلمیں بنتی ہیں، ایسے موضوعات کو بھی زیر قلم اور فلم کی ریل پر لایا جاتا ہے جو ہمارے ہاں کفر اور شدید غداری کا باعث کہلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کم رفتار میں ہی سہی انڈیا ہم سے بہت آگے جا چکا ہے۔
مشت زنی بھی اب کہاں محفوظ رہی ہے، لڑکی ہو یا پھر لڑکا، دس منٹ سے زیادہ باتھ روم میں لگا ڈالے تو ماں یا باپ پوچھ لیتے ہیں کہ۔ ”اتنی دیر کیوں لگی“؟ اپنے ہی کمرے میں کنڈی لگا کر سونے کی کوشش کی جائے تو پوچھ لیا جاتا ہے کہ۔ ”ایسا کر کیا رہے ہو جو کنڈی لگانے کی ضرورت پیش آئی“؟ دوسری طرف ہمارے معاشرے کی دیواریں مردانہ کمزوری اور بانجھ پن کی آماجگاہ ہیں، بچپن سے جوانی تک میں کی گئی مشت زنی سے کچھ تو جوان پہلے ہی خوفزدہ ہوتے ہیں اور باقی کسر یہ دیواریں اور حکیم پوری کر دیتے ہیں کہ۔ ”اب تو میاں آپ نامرد ہو چکے ہو، یہ کشتہ نہیں کھاؤ گے تو شادی کو بھول جاو، یوں سمجھو کہ شادی تو آپ کرو گے لیکن انجوائے پورا محلہ کرے گا“۔
براہ کرم معاشرے پر تھوڑے رحم کی کوشش کی جانی چاہے۔ اگر کوئی رومانوی کپل کسی پارک یا تفریحی مقام پر جاتا ہے تو پولیس والے ان کا نکاح نامہ طلب کرتے ہیں جبکہ یہی پولیس والے کپل کو پکڑنے پر سب سے پہلے خود لڑکی پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اگر کوئی تنگ آیا جوڑا کسی ہوٹل میں پناہ لیتا ہے تو وہاں چھاپے پڑنے لگتے ہیں، لڑکی کا استحصال کیا جاتا ہے، ان کی ویڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے، ذاتی پسند، نا پسند، کھانا پینا، سونا، مذہب اور سیکس انسان کے انتہائی ذاتی معاملات ہیں جن کو ٹچ کرنا، اور اس مد میں ہراس کرنا جرم ہونا چاہیے۔
بھائی اور باپ نے بھلے محلے کی کوئی آنٹی اور علاقے کی کوئی گدھی نہ چھوڑی ہو لیکن ان کو اپنے گھر کی خواتین پر مکمل کنٹرول درکار ہے جبکہ حقیقت میں بالکل اس کے الٹ ہو رہا ہوتا ہے۔ آپ کے ساتھ اگر کسی کی بہن بیٹی سیٹ ہے تو بھائی آپ کی بھی کسی کے ساتھ سیٹ ہی ہے، یہ ساری لڑکیاں جو آپ معشوقہ بنائے گھومتے ہو یہ مریخ سے نہیں آتیں، بس آپ ساتھ والے محلے جاتے ہو تو تب ہی ساتھ کے محلے والے آپ کے محلے آئے ہوتے ہیں۔ اتنی پابندیاں، جبر، گھٹن، خوف اور شدت طلب کی وجہ سے لڑکے اور لڑکیاں نفسیاتی مریض بنتے ہوئے اگر سڑکوں پر نہ نکلیں تو کیا کسی باغ میں برقع اوڑھ کر اکیلے بیٹھے امب چوپیں؟ کسی چوک میں یوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر یہ حرکت کرنا بالکل غلط اور گھٹیا حرکت ہے لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ان وجوہات کو بھی زیر بحث لانا اور ان پر سوچنا ہوگا۔ کچھ اور نہیں تو میاں کم سے کم مشت زنی کے آداب ہی پر اتفاق کر لیں۔