امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کے علاقے ادلیب میں امریکی فوجی کارروائی کے دوران شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے سربراہ ابوبکر بغدادی کے مارے جانے کا بڑے فاتحانہ انداز میں اعلان کیا ہے۔
بین الاقوامی تھنک ٹینک چیٹم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر لینا خطیب ابوبکر البغدادی کے بعد کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ بغدادی کی ہلاکت کو یہ نہ سمجھا جائے کہ اس سے اب شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
ابوبکر البغدادی کی موت سے دولت اسلامیہ پر مستقبل قریب میں زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اس گروپ کے زندہ رہنے کا انحصار شام کے حالات پر ہو گا بجائے یہ کہ اس کا کوئی رہنما ہے یا نہیں۔
بغدادی دولت اسلامیہ کے لیے بہت اہم تھے خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب یہ گروپ اپنی ریاست بنانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔
اس بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ کے بغیر خلافت بھی قائم نہیں کی جا سکتی دولت اسلامیہ نے بغدادی کو دنیا کے سامنے ایک چہرے کے طور پر پیش کیا تاکہ ان کے حمایتی یہ جان سکیں کہ اس گروپ کا کوئی رہنما بھی ہے۔
دولتِ اسلامیہ کی شام اور عراق میں شکست کے باوجود ان کے حمایتی بغدادی کے روپ میں ایک خلیفہ دیکھ رہے تھے جو کسی نہ کسی دن خلافت کی بحالی کو ممکن بنا سکے گا۔
یہ بھی پڑھیے
دولت اسلامیہ والوں کی بیگمات اور بیواؤں کے انٹرویو کرنے والے صحافیوں اور انسانی امداد بہم پہنچانے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ بغدادی کے بیانات ان کے حامیوں کو متحرک کرنے کا ایک ذریعہ تھے چاہے وہ زبانی کلامی ہی کیوں نہ ہوں۔
ترکی کی شمالی شام میں فوجی حملوں سے دولت اسلامیہ کی صلاحیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے تاہم یہ تنظیم اب بھی زندہ ہے۔ اس گروپ کے سلیپر سیل موقع پا کر اب بھی شمالی شام میں سویلین آبادی کو گاہے بگاہے نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
پالمیرا کے مغرب میں سوخانہ کے وسیع و عریض صحرا میں دولتِ اسلامیہ کے جنگجو شامی صدر بشار الاسد کی افواج اور روس کے اہداف کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
دولت اسلامیہ کے کئی سابق جنگجوؤں نے علاقے میں سرگرم ایک دوسرے جہادی گروپ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
شام کے صوبے ادلیب میں دولتِ اسلامیہ کا قریبی حریف القاعدہ کا ایک گروہ حراس الدین ہے جو عسکری طور پر زیادہ متحرک نہیں ہے لیکن مقامی آبادی میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔
شام میں دولت اسلامیہ کا مرکز دیر الزور کے علاقے ہیں اور وہ خاص طور پر بوسیرا کے جنوب میں متحرک ہیں جس کا کنٹرول سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یعنی ایس ڈی ایف کے پاس ہے۔
مقامی آبادی ایس ڈی ایف کو پسند نہیں کرتی کیونکہ اس علاقے کی آبادی کی اکثریت عرب النسل ہے اور ایس ڈی ایف میں کردوں کا غلبہ ہے۔ مقامی آبادی کو نہ تو شامی افواج پسند ہیں اور نہ ہی ایرانی ملیشیا انھیں بھاتی ہے جو قریبی قصبوں میں موجود ہیں۔
مقامی قبائل نے حالیہ دنوں میں شامی فوج اور ایرانی ملیشیا کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔
ترکی کی فوج کے علاقے میں آمد سے قبل جب بھی ديرالزور کے قبائل اور ایس ڈی ایف کے مابین کشیدگی پیدا ہوئی علاقے میں دولت اسلامیہ کی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
کچھ ماہ پہلے ایس ڈی ایف کی ایک چیک پوسٹ پر ایک عرب راہ گیر کی ہلاکت کے بعد دیر الزور میں حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان حملہ آوروں کو مقامی عرب قبائل کی حمایت حاصل تھی۔
حالانکہ جو دھماکے بھی ہوئے وہ تمام کے تمام مقامی طور پر بنائے گئے تھے اور وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے قابل نہیں تھے۔
جب سے ترکی کی فوج نے علاقے کا رخ کیا ہے دولتِ اسلامیہ کو دير الزور میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں مدد ملی ہے کیونکہ ایس ڈی ایف کے اہلکار ترک فوجوں کا مقابلے کرنے کے لیے سرحد کی جانب چلے گئے ہیں۔
البتہ دولت اسلامیہ نے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے اور وہ جس طرح کے دیسی ساختہ دھماکہ خیز ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی عسکری صلاحیت میں واضح کمی واقع ہو چکی ہے۔
دير الزور میں تیل کی کنوؤں کی حفاظت پر مامور غیر ملکی افواج بھی دولت اسلامیہ کی راہ میں حائل ہیں۔
دولت اسلامیہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کو یقیناً اپنےحامیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے گی اور اپنے لیڈر کی موت کا انتقام لینے کی باتیں بھی کرے گی لیکن اس میں لڑائی لڑنے کی صلاحیت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
ایک حالیہ مثال دولتِ اسلامیہ کی کمزوری کو واضح کرتی ہے۔ شام میں دولتِ اسلامیہ کے سربراہ ابو ایمن العراقی ایس ڈی ایف کے ساتھ اگلے مورچوں پر لڑتے ہو ئے مارے گئے۔ جب دولت اسلامیہ مضبوط تھی تو اس کے اعلیٰ کمانڈر فرنٹ لائن پر لڑنے کے لیے نہیں جاتے تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔
اس بات کا امکان ہے کہ دولت اسلامیہ ابوبکر البغدادی کا جانشین چنے گی لیکن اس کی کارروائیوں کا دارومدار علاقے کی صورتحال پر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ابوبکر البغدادی کو ادلیب کے علاقے میں مارا گیا ہے جہاں وہ دولت اسلامیہ کو پھر سے منظم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ادلیب کا جہادی گروپ حراس الدين جو القاعدہ سے وفادار ہے اور وہ هيئة تحرير الشام سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے، اس نے ابوبکر البغدادی کو پناہ دی ہو گی۔
هيئة تحرير الشام علاقے میں اپنی انتظامیہ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن علاقے میں دولت اسلامیہ کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں اور اس کا کوئی امکان نہیں کہ اس علاقے میں دولت اسلامیہ کی خلافت قائم ہو سکے۔
شام کی فوج شمال مشرقی علاقے میں اپنی موجودگی کو بڑھا رہی ہے لیکن فوجیوں اور اسلحے کی کمی کی وجہ سے شامی فوج کی صلاحیت محدود ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ شامی افواج شمالی شام درعا میں بھی مصروف ہیں اور وہ ادلیب کے شمال مغرب میں بھی کارروائی کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔
شمال مشرقی شام میں اب بھی کرد جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔ امریکی افواج کی علاقے سے روانگی کے بعد کرد جنگجوؤں نے شام کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے اور اب وہ علاقےمیں شام کےجھنڈے بھی لہرا رہے ہیں لیکن عملاً علاقہ انھیں کے کنٹرول میں ہے۔
دولت اسلامیہ کو اسی صورت میں علاقے میں اپنے قدم جمانےمیں مدد مل سکتی ہے اگر غیر ملکی افواج دیر الزور سے نکل جائیں۔
اگر غیر ملکی افواج مکمل طورپر علاقے سے چلی گئیں تو دولت اسلامیہ کرد جنگجوؤں کے مخالف عرب قبائل کی مدد سے اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ البتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ علاقے میں تیل کے کنوؤں کی حفاظت پر مامور غیر ملکی افواج موجود رہیں گی۔
امریکہ کی سربراہی میں قائم اتحاد ابوبکر البغدادی کی موت کو یقیناً اپنی فتح کے طور پر پیش کرے گا لیکن دولت اسلامیہ کی بحالی کا انحصار مقامی صورتحال پر ہے۔ تیل کے کنوؤں کی حفاظت پر مامور غیر ملکی افواج دولت اسلامیہ کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔