کچھ روز سے ہر طرف اس “دو ٹکے کی عورت” والے ڈائیلاگ کو لے کے نت نئی بحث اور دلائل سن رہی ہوں۔ بات عورت یا مرد کی نہیں، جو کوئی بھی خود پہ “بکاؤ” کی تختی سجا کے بیچ بازار آ کھڑا ہو گا، اس پر برانڈ نیم اور قیمت کا ٹیگ تو ضرور ہو گا۔ تو پھر یہاں فیمن ازم کارڈ ہی کیوں استعمال کیا جا رہا ہے؟ کیا صرف عورت ہونے کی بنا پہ کسی دانستہ یا غیر دانستہ سرزد ہوئی غلطی کو جسٹیفائی کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر محض یہی دلیل کافی ہے کہ مردوں کی اکثریت بے وفا ہوتی ہے، تو برابری کے کا حق استعمال کرتے کسی عورت نے بھی ایسا کر دیا تو کونسا آسمان ٹوٹ پڑا؟ محض صنفی امتیاز پر کسی فعل کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا، ظلم بہ ہر صورت ظلم ہی کہلائے گا۔
چند افراد ڈرامے کے اس کردار کی حمایت میں یوں بھی نظر آئے کہ ہر کس و نا کس کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی من چاہی زندگی گزارے. تو کیا من چاہی زندگی؛ خواہشوں کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے کا نام ہے؟ خواہشیں بھی وہ کہ جن کا کہیں کوئی انت ہی
نہیں۔ خواہشیں کہ وقت، حالات اور شعور کے ساتھ جس کی اشکال اور مطالبے بدلتے رہتے ہیں؟ اگر خواہشوں کی پرستش اور صرف اپنی ہی ذات کے سود و زیاں کی فکر کا نام زندگی ہے تو پھر خودغرضی اور self centered کی اصطلاحات کو ختم کر دینا چاہیے۔
کسی شخص کے اپنی ذات کے متعلق فیصلے تب تک تو بے ضرر گردانے جا سکتے ہیں، جب تک اس کے ساتھ جڑے رشتے اُس کی زد پر نہ آئیں۔ یہاں “میری زندگی، میری مرضی” کا راگ آلاپ کر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا۔ نا ہی یہ طرزِ عمل معاشرے میں شخصی آزادی کا درست پیمانہ کہلائے جانے کے قابل ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کی منہ زور چاہتوں کی بھینٹ دوسرے لوگ چڑھ جائیں۔ ارمان آپ کے ہیں لیکن ان کی قیمت دوسرے چکائیں! بھگتاں دوسروں کے کھاتے میں کیوں؟
کسی صحت مند معاشرے کی بنیاد، مساوات اور ایثار کی بنیاد ہی پر کھڑی ہے۔ دانہ، دانہ پرو کر ایک تسبیح یا مالا بنتی ہے۔ اینٹ، اینٹ جوڑ کر ہی کسی عمارت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ فرد اکیلا کچھ نہیں۔ خواہشات کا پالنا کوئی بری بات نہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے شارٹ کٹ ہی کیوں؟ محنت، ایمان داری اور قناعت سے بھی تو زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ یہ ہمارا چلن ہو چکا ہے کہ جو میسر ہے اسے ” یہ تو جیب ہی میں ہے” سمجھ کر فار گرانٹڈ لیا جائے اور وہ جو دست رس میں نہیں اس کے حصول کی دوڑ میں تمام سماجی، خانگی اور اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑا دی جائیں۔ زندگی کا حسن اعتدال اور مثبت فکر و عمل میں ہے۔ منفی فکر کا دروازہ کبھی سکون کی وادی میں نہیں کھل سکتا۔